Thursday, June 20, 2013

بلوچستان کا 2013-14 کا 198ارب روپے کا بجٹ پیش،تعلیم کیلئے 35ملین امن کیلئے 16ملین مختص


کوئٹہ(سٹاف رپورٹر)بلوچستان کا نئے مالی سال 2013-14کا کل حجم بجٹ 198ارب روپے سے زائد پیش کردیاگیاجس میں بجٹ خسارہ 7ارب روپے سے زائد ہے جبکہ ترقیاتی کاموں کے لئے 43ارب روپے اور غیرترقیاتی کاموں کے لئے 154ار ب روپے سے زائد کا بجٹ مختص کردیاگیا جس میں بیرونی تعاون کا حصہ 3ارب روپے ہے جس میں ریونیو اخراجات کا تخمینہ 117ارب روپے اورکیپیٹل اخراجاب کے لئے 37ارب روپے جس میں صوبے کے اپنے وسائل سے آمدن کا 6ارب روپے سے زائد شامل ہیں بلوچستان اسمبلی میں وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے نئی مالی سال 2013-14کا بجٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہم یہ دعوی نہیں کرتے کہ اس منتخب حکومت کا پہلا مالی میزانیہ 2013-14تمام مسائل کا حل ہوگا نہ ہی یہ حقیقی طور پر عوام کی 
خواہشات کا علمبردار ہوسکتا ہے. ہاں مالی میزانیہ 2013-14 موجودہ مسائل کے حل کی طرف اِس عوامی قوت کی ترجیحات کا مظہر ضرور ہے. اور اس سلسلے کے اولین اقدامات کا مجموعہ ہے۔بلوچستان کی اِس منتخب عوامی قوت کی سماجی اور معاشی ترقی کے اصول و ترجیحات انشاء اللہ صوبہ میں سماجی اور اقتصادی پالیسیوں کے حوالے سے نئی روایات کی بُنیادڈالے گی. ہمارے لیے رہنُما اصول یہ ہیں کہ بلوچستان کی ترقی صرف موثر تعلیمی نظام کے نفاذوفعالیت اور ہماری معیشت کے چار مضبوط ستونوں ،زیر زمین معدنیات ، زراعت، گلہ بانی اور سمندر وسمندری حیات سے سائنسی بُنیادوں پر استفادہ سے ہی ممکن ہے. نہ صرف یہ بلکہ اگلے این ایف سی (یعنی کہ آٹھویں National Finance Commission Award ) میں بلوچستان کا مدلل اور جامع کیس پیش کرنا بھی ہمارے ایجنڈے کا حصہ ہے. اس حوالے سے اگلے سال سے ہم معیشت دانوں کی ایک ٹیم تشکیل دے رہے ہیں اور ہماری حکومت درجِ ذیل ترجیحات کی بُنیاد پر کا م کرے گی انہوں نے کہا کہ تعلیم کے میدان میں ہنگامی بُنیادوں پر کام کرنا. بلوچستان کی جغرافیائی حالات مُنتشر آبادی کے تناظرمیں تعلیمی پالیسی میں اصطلاحات تاکہ پُوری آبادی کو تعلیمی سہولیات مہیا کی جاسکیں اس مقصد کیلئے کالجز میں ہاسٹلز کی تعمیر ترجیحات میں شامل ہیں۔ مادری زبانوں میں تعلیم کے بُنیادی حق کو تسلیم کرتے ہُوئے اس کی حوصلہ افزائی کی جائے گی.صحت کا مسئلہ جو کہ بلوچستان میں سنگین نوعیت اختیار کر چُکا ہے بھی اِس حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے. صحت کا شعبہ انتظامی اور مالی دونوں طور پر نظر انداز شُدہ رہا ہے. اس محکمہ کی فعالیت تعلیم کیساتھ بڑی ترجیح ہے. محکمہ صحت سے منسلک تعلیمی اداروں کی بہتری اور نئے اداروں کی تعمیر ہمارے پروگرام کاحصہ ہے امن و امان کی حالت میں بہتری کیلئے صوبائی قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مستحکم کرناکرپشن اور اقراباء پروری کے خلاف منظم جدوجہد۔ صوبائی آمدن وذرائع روزگارمیں اضافے کے لیے معدنیات کے شعبہ میں سرمایہ کاری انفراسٹرکچر اور معیشت کی بحالی بھی ہماری ترقیاتی پروگرام کا حصہ ہے۔ کیونکہ صوبہ کے عمومی ترقی اور بے روزگاری کا حل اسی سے منسلک ہے توانائی/بجلی کے بحران پر قابو پانے کیلئے شمسی توانائی اور دوبارہ قابل استعمال توانائی کے مختلف منصوبے شُروع کیے جائینگے. اور وقت کے ساتھ ساتھ بجلی کے ذرائع کو شمسی توانائی کی بُنیادوں میں تبدیل کیا جائیگا.ماہی گیری سے منسلک ذرائع آمدن و روزگار کی ترقی۔غیر ترقیاتی اخراجات میں خاطر خواہ کمی تاکہ محدود وسائل کو بہتر انداز میں استعمال میں لایا جا سکے.نجی اداروں کی ماہی گیری، مال مویشی و توانائی کے شعبہ جات میں حوصلہ افزائی کے ذریعہ بے روزگار افراد کی سرکاری مُلازمتوں پر انحصار کم کرنا.موجودہ صنعتی اداروں کی فعالیت اور اِن سے منسلک مُلازمین کی فلاح وبہبُود اورباعزت روزگار کے مواقع پیدا کرنا.بلوچستان کے عوام کے لیے وفاق سے وسائل اور ملازمتوں کا منصفانہ حصول. مُلک میں اختیارات و وسائل کی موجودہ غیر منصفانہ تقسیم کو ردکرتے ہُوئے دولت و اختیارات کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنایا جائے گا. وفاق اور قومی وحدتوں کے درمیان وسائل کی شرح کو منصفانہ بناتے ہُوئے 80فیصد قومی وحدتوں اور 20فیصدوفاق کیلئے مختص کرنے کی کوشش کی جائے گی. قومی وحدتوں کے درمیان موجودہ تقسیم دولت کے فارمولے کو تبدیل کرتے ہُوئے این ، ایف ، سی(NFC) میں تقسیمِ دولت کے نئے فارمولے کو بین الاقوامی دُنیا میں جاری طریقہ کار سے مطابقت کے مطابق غُربت، منتشر آبادی، آمدنی اور آبادی کو مناسب توازن دینے کی بھرپُور کوشش کی جائیگی تاکہ بلوچستان کو سماجی اوراقتصادی حوالے سے دُوسرے صوبوں کے برابر لایا جا سکے خواتین کے سیاسی و معاشی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے گا اور تمام امتیازی قوانین کو ختم کرکے زندگی کے ہر شعبے میں عورتوں کی حوصلہ افزائی کی جائیگی اور تمام شعبوں میں انہیں برابری دلانے کی جدوجہد کی جائے گی بلوچستان کے سرکاری ملازمین کی ترقی و تحفظ کو یقینی بناتے ہُوئے تمام اہم سرکاری عہدوں پر ان کی تعیناتی کو اولیت دی جائے گی اقلیتوں کو تحفظ دینے کی بھر پُور کوشش کی جائے گی اور اُنکو زندگی کے تمام شعبوں میں یکساں اہمیت دی جائے گی آ ئندہ مالی سال کا بجٹ پیش کرنے سے پہلے یہ مناسب ہوگا کہ موجودہ مالی سال کے نظرثانی تخمینے معزز ایوان کے سامنے پیش کئے جائیں جس کے بعد معزز ایوان کو ہماری مخلوط حکومت کے نئے مالی اقدامات کے بارے میں آگاہ کرونگا. جاری سال 2012-13 کے کل بجٹ کا ابتدائی تخمینہ 179.931بلین روپے تھا۔نظر ثانی بجٹ برائے سال 2012-13 کا تخمینہ 183.983بلین روپے کا ہوگیا ہے۔ 2012-13 کے اخراجات جاریہ کا تخمینہ 144.112 بلین روپے تھا۔ جو نظرثانی تخمینے میں کم ہو کر 138.383بلین روپے ہوگیا ہے۔ مالی سال 2012-13 میں پی۔ایس۔ڈی۔پی(PSDP) کا حجم 36.077بلین روپے تھا ۔ اس میں 720 جاری اسکیمیں جبکہ 732نئی اسکیمیں شامل تھیں۔ 2012-13 میں PSDP پر نظر ثانی کرتے ہوئے اسکاحجم34.780بلین روپے ہو گیا۔ نظرثانی کے بعد664 جاری اسکیموں کیلئے15.595بلین روپے اور615نئی اسکیموں کیلئے 19.185بلین روپے مختص کیے گئے جبکہ وفاقی حکومت کی PSDP سے صوبائی محکموں کے توسط سے عملدرآمد ہونے والی اسکیموں کیلئے 10.298بلین روپے اسکے علاوہ ہیں۔ PSDP برائے سال 2012-13 کی 641 جاری اور نئی اسکیمیں مالی سال کے اختتام تک مکمل کی جائینگی۔ انہوں نے کہا کہ معاشرے کی مجموعی ترقی کے عمل میں تعلیم کی کلیدی اہمیت کے پیش نظر ہماری ترقیاتی حکمت عملی میں تعلیمی شعبے کی ترقی کو اولین ترجیح حاصل ہے. تعلیمی ترقی کے حوالے سے ہمارا عزم ہے کہ ہم اِس شعبہ کو جلد از جلد ترقی یافتہ صوبوں کے مساوی لائیں گے. تعلیم کو عام کرنے اور معیار کو بہتر بنانے کیلئے تمام دستیات وسائل اور صلاحیتیں بروئے کار لائیں گے. اس لئے اس اہم شعبہ کی ترقی و ترویج کیلئے ہماری حکومت مندرجہ ذیل اصلاحات کریگی.تمام اسکولوں کی نگہداشت اور اساتذہ کی حاضری کو یقینی بنانے کے لیے کمیونٹی مانیٹرنگ کے نظام کی حوصلہ افزائی کی جائے گی.تمام اساتذہ کی بھرتی کو میرٹ پر کرنے کے لیے تعیناتی کے تمام اختیارات پبلک سروس کمیشن کو دئیے جائیں گے.تمام کالجوں میں طلباء کیلئے بورڈنگ اور اساتذہ کے لیے رہائشی سہولیات میسر کی جائیں گی. تعلیمی نصاب سے نفرت پھیلانے والے تمام مواد کو نکالا جائے گا.اعلی سطحی اور معیاری نظام تعلیم کے لیے صوبے میں ہائر ایجوکیشن کمیشن قائم کیا جائے گا جو اندرون و بیرونی ممالک سے مالی امداد و تعلیمی وظائف کیلئے متعلقہ نجی و سرکاری اداروں اور درس گاہوں سے قریبی روابط وتعلقات کے قیام کے لیے اقدامات کرنے کا پابند ہوگا اور صوبے کے تمام اعلی تعلیمی اداروں میں نصاب وارتحقیق کے معاملات کی نگرانی ورہنمائی کرے گا تاکہ طلباء و اساتذہ کو میرٹ پر تعلیمی وظائف مہیا کیے جا سکیں. بلوچستان ہائر ایجوکیشن ڈائریکٹریٹ سے دیگر صوبے میں داخلہ حاصل کرنے والے ٹیکنیکل اور نان ٹیکنیکل طلباء کو باقاعدہ اسکالرشِپ دیاجائے گا.موجودہ فرسودہ نظام تعلیم کی جگہ جدید سائنسی اور ٹیکنیکل خطوط پر مبنی نیاتعلیمی نظام رائج کیا جائے گا جو تمام شہریوں کو یکساں مواقع فراہم کرے گا اور تعلیمی اداروں میں اعلی تعلیم یافتہ اساتذہ کی تقرری کو یقینی بنایا جائے گا . جدید ٹیکنیکل اور سائنسی آلات مہیا کرکے تعلیمی اداروں کو جدید دُنیا کے برابر لایا جائے گا.انہوں نے کہا کہ ہر ضلعی و تحصیل ہیڈ کوارٹر میں بوائز اور گرلز ماڈل اسکولوں کی تعمیر کو یقینی بنایا جائے گا جہاں طلباء و طالبات کیلئے بورڈنگ کا خاص انتظام کیا جائے گاجہاں دُور دراز سے آنے والے طلباء کو رہائش کی سہولیات دی جائیں گی . بورڈنگ میں رہائش پذیر طلباء کو اسکالر شپ بھی دینے کا بندوبست کیا جائے گا.انہوں نے کہا کہ ترقیاتی وغیر ترقیاتی اخراجات کی مد میں آنے و الی مالی سال 2013-14میں محکمہ تعلیم کے لیے 34898.635ملین روپے مختص کیے گئے جو کہ رواں مالی سال کے مقابلے میں 42فیصد زیادہ ہے.پانچ ارب روپے سے بلوچستان انڈومنٹ (Endowment)فنڈ کا قیام اِس حکومت کی تعلیم کے شعبے میں سنجیدگی کی علامت ہے. اس فنڈ کے تحت سالانہ پانچ ہزار بلوچستانی طلباء کو مُلکی اور بیرونی مستند تعلیمی اداروں میں تعلیمی اسکالرشپس دیئے جائینگے جسکی تفصیل مندرجہ ذیل ہیں،واضع رہے کہ یہ رقم تعلیم کی مد میں مختص کی گئی ترقیاتی و غیرترقیاتی اخراجات کے علاوہ ہے انہوں نے کہا کہ سیکنڈری لیول کے 1600طلباء انٹرمیڈیٹ لیول کے 600طلبائگریجویشن کے 600طلباء میڈیکل کے 200طلباء انجینئرنگ کے 200طلباء ایگریکلچر اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے 300طلبائخصوصی اداروں جس میں لمز(LUMS)، آئی بی اے، جی آئی کیاور نسٹ (NUST)کے 100طلباء ماسٹر لیول کے 600طلباء بیرونِ مُلک کے 12طلباء کوچنگ کلاسزکے لیے1500اسکالرشپس دیئے جائینگے.صوبے کے تعلیمی و صحت کی ضروریات پُوری کرنے کے لیے تین نئے میڈیکل کا لجز کے منصوبے اِس سال کے بجٹ کا حصہ ہیں.بولان میڈیکل کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دیا جائے گاجو کہ یہاں کے زیرِ تعلیم ڈاکٹرز کا دیرینہ خواب ہے بلوچستان زرعی کالج کوئٹہ کو یونیورسٹی کا درجہ دینا بھی اِس حکومت کی تعلیمی وزرعی ترجیحات کا حصہ ہے.بلوچستان یونیورسٹی کا ایک کیمپس خُضدار میں قائم کیا جائے گا.تین سو نئے پرائمری اسکولز تعمیر کئے جائینگے جس کے لیے ایک ارب روپے مختص کیے گئے ہیں.تین سو پرائمری اسکولوں کو مِڈل اسکولوں کا درجہ دیا جائے گا. اِس مد میں ڈیڑھ ارب روپے مختص کیے گئے.جبکہ 150مِڈل اسکولوں کو ہائی کا درجہ دینے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے.جسکے لیے ایک ارب روپے رکھے گئے ہیں.موجودہ اسکولوں میں اضافی کمرے تعمیر کرنے کے لیے ایک ارب روپے مختص کیے گئے ہیں.ہائی اسکولوں میں امتحانی حال، لیبارٹری اور لائبریریوں کی تعمیر کیلئے پچاس کروڑ روپے رکھے گئے ہیں. اسی طرح کالجز کیلئے بھی پچاس کروڑ روپے کے سفارش کی گئی ہے.کیڈٹ کالجز کے گرانٹ کو 184 ملین سے بڑھا کر 283ملین روپے کردیا گیا ہے.انہوں نے کہا کہ صحت کا شعبہ ہماری دوسری اہم ترجیح ہے. ہمیں اچھی طرح اندازہ ہے کہ بلوچستان کے عوام کی وسیع اکثریت بُنیادی طبی سہولتوں سے محروم ہے اور نجی ہسپتالوں میں علاج معالجہ کی ہماری غریب عوام میں استطاعت نہیں ہے. ہماری حکومت موجود ہسپتالوں میں علاج معالجہ کی بہتر سہولتوں اور ادویات کی فراہمی کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ صوبے کے دُور دراز علاقوں میں صحت کے نئے اداروں کے قیام اور عوام کو طبی سہولتوں کی فراہمی کیلئے ٹھوس اقدامات کرے گی. آنے والے مالی سال 2013-14 میں محکمہ صحت کیلئے 15233.578ملین روپے مختص کئے گئے ہیں. جو موجودہ مالی سال کے بجٹ کے مقابلے میں 37فیصد زیادہ ہے.نئے مالی سال کے PSDP میں صحت کے شعبے میں 4.046بلین روپے رکھے گئے ہیں جو41 جاری اور 9نئی اسکیمات پر خرچ ہونگے.بولان میڈیکل کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دیا جائے گا.صوبے کے تعلیمی و صحت کی ضروریات پُوری کرنے کے لیے تین نئے میڈیکل کا لجز کے منصوبے اِس میزانیے کا حصہ ہیں.اسی طرح صوبے کے بڑے ہسپتالوں سمیت تمام ضلعی صحت کے مراکزمیں مختلف مشینری وطبی آلات کی کمی کو دُور کرنے کیلئے ہماری حکومت نے ایک ارب روپے کی خطیر رقم مختص کی ہے.علاوہ ازیں ہسپتالوں کی مرمت کیلئے بھی 6کروڑ روپے کی رقم رکھی گئی ہے.شیر خوار بچوں اور ماؤں کی شرح اموات میں کمی لانے اور زچہ و بچہ کو صحت مند و توانا بنانے کیلئے MNCH،پی.پی.ایچ. آئی جیسے پروگراموں کے توسط سے صوبے میں کام کو مزید مؤثر بنایا جائے گا.چیف منسٹراِنیشیٹو (Chief Minister Initiative)ہیپاٹائٹس کنٹرول پروگرام کیلئے 50ملین روپے مختص کیے گئے ہیں. جس کے تحت ہیپاٹائٹس بی اور سی کے مریضوں کو دوائیاں دی جائینگی.چند سالوں سے بلوچستان میں پولیو سے متاثرہ بچوں کی تعداد خطرناک حد تک بڑھ رہی ہیں، میں اپنی اس بجٹ تقریر کے ذریعے وفاقی حکومت اور بین الاقوامی اداروں کویقین دلاتا ہوں کہ انشاء اللہ ہم بلوچستان سے پولیو وائرس کا خاتمہ کرکے ہی دم لیں گے.کوئٹہ میں پنجاب حکومت کی تعاون سے دل کے امراض کا سینٹرقیام عمل میں لایا جائے گا.دوائیوں کی کمی کو دُور کرنے کیلئے ہم نے اگلے مالی سال کے لیے1126.026ملین روپے کی خطیر رقم رکھی ہے. جو صوبے بھر میں دوائیوں کی مفت فراہمی ہوگی .ضرورت پڑی تو اِس میں مزید اضافہ کیا جائے گا.تمام ضلعی ہیڈ کوراٹرز میں قائم ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتالوں کی حالت کو بہتر کرنے کے حوالے سے انقلابی اقدامات اُٹھائے جائینگے.پوسٹ گریجویشن کی کلاسیں بولان میڈیکل کالج میں شروع کی جائیں گی اور دیگر صوبوں میں پوسٹ گریجویشن کیلئے طلباء کو اسکالر شپس دئیے جائینگے.انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ہیلتھ (IPH) میں طریقہ داخلہ ، طریقہ تعلیم ، اسٹاف کی تعیناتی ، فنڈزکے استعمال اور معیار تعلیم پر سخت تحفظات رکھتے ہُوئے اِسے ایک موثر پوسٹ گریجویٹ ادارہ بنایا جائے گا.پوسٹ گریجویٹ میڈیکل انسٹیٹیوٹ (PGMI) میں صوبے کی ضرورت کے مطابق داخلے دیئے جائینگے. اِسکے لیے کل وقتی اسٹاف تعینات کیا جائے گا.بلوچستان ہیلتھ فاونڈیشن(BHF) کی کارکردگی مایوس کُن ہے اِس کی گرانٹ میں اضافہ کرکیبے روزگار اورریٹائرڈ ڈاکٹروں کو قرضے دیکر بیرونِ کوئٹہ و دیہی علاقوں میں ہسپتال کھولنے کی حوصلہ افزائی کیجائیگی اور اِسکے دفاتر ڈیژنل سطح پر کھولے جائیں گے.BHFکے موجودہ قوانین میں نظرثانی کی جائے گی.بلوچستان میڈیکل یونیورسٹی کا قیام یقینی بنا کر محکمہ صحت سے الگ کردیاجائے گا. اِس یونیورسٹی کے ٹیچنگ ہسپتال بی ایم سی ، سول ہسپتال، شیخ زید، ہیلپرز، چیسٹ اورچلڈرن ہسپتال شامل ہوں گی.چلڈرن ہسپتال CHQایک اچھا ادارہ ہے اِسے بلوچستان میڈیکل یونیورسٹی کے ساتھ منسلک کرکے ٹیچنگ ہسپتال کا درجہ دیا جائے گا. کوئٹہ میں PHDC اور ڈویژنل ہیڈکوارٹرز کے DHDCs کو فعال بنا کر پیرامیڈیکل اسٹاف کو تمام ٹیکنالوجیز میں بہتر تربیت دلائی جائیگی.کوئٹہ میں قائم ملٹی پر پز پیرا میڈیکل اسکول کو بہتر بنا کر اِسی قسم کے اسکول تمام ڈویژنل ہیڈ کوارٹرزمیں بنائے جائیں گے جن میں X-Rayڈینٹل ، ڈسپنسریOT ، لیبارٹری وغیرہ کی تربیت دی جائیگی.انہوں نے کہا کہ امن و امان کی روز بہ روز بگڑتی مجموعی صورت حال کو بہتر بنانے کیلئے ضروری ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور فورسز کی بھرپُور معاونت کی جائے اور انہیں جدید دُنیا کے ہم پلہ بنایا جائے تا کہ ہمارے صوبے کا تاریخی و مثالی امن وبھائی چارے کی فضاء واپس بحال کی جا سکے۔ ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو موجودہ دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، فرقہ واریت، اغواء برائے تاوان اور دیگر پیچیدہ جرائم کا سامنا ہے. کئی آفیسران و عملہ اس مخدوش صورت حال میں زندگیاں گنوا چُکے ہیں. بُہت سے اہلکاروں کو معزوری کا سامنا کرنا پڑا. اس کے باوجود ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے غیور اہلکار نہایت حوصلے اور جوان مردی سے امن و امان کو برقرار رکھنے کیلئے اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں. اس نامناسب حالات میں ہمارے فورسز کے مورال کو بلند رکھنا اور ان کے خاندانوں کی مناسب دیکھ بھال کرنا انتہائی ضروری ہے. لاپتہ افراد کا مسئلہ امن وامان کے مسئلے سے جڑا ہُوا ہے. ہمار ا روز اول سے یہ واضع موقف ہے کہ لاپتہ افراد کی بازیابی اور مسخ شُدہ لاشوں کا سلسلہ بند ہُوئے بغیراور نقل مکانی کرنے والے لوگوں کے از سر نو آباد کاری، مذہبی فرقہ واریت کو ختم کرنے اور مذہبی بھائی چارے کی فِضا قائم کیے بغیر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے. یہ حقیقت اُمید افزاء ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف نے اس حوالے سے مثبت رویہ اختیار کیا ہے اور ہر ممکن تعاؤن کا یقین دلایا ہے. وزیر داخلہ چوہدری نثار نے بھی اسمبلی فلور پر اپنے بیان میں ہمارے موقف سے اتفاق کیا ہے. اور مسئلے کے حل کیلئے حکومتِ بلوچستان سے تعاؤن کررہے ہیں. مجھے یقین ہے کہ مذکورہ اساسی مسائل حل ہونے کی صورت میں بلوچستان کے ماحول میں بُنیادی نوعیت کی تبدیلی آئے گی. لاقانونیت اور بدامنی کو عوام کے تعاؤن اور حکومتی اقدامات کے نتیجے میں جلد شکست دیں گے. مندرجہ ذیل اقدامات ہماری صوبائی فورسز کی فلاح و بہبوکیلئے کئے گئے ہیں انہوں نے کہا کہ آنے والے مالی سال 2013-14 میں لاء اینڈ آرڈر کیلئے غیر ترقیاتی بجٹ میں 16.236بلین روپے مختص کئے گئے ہیں۔ جو موجودہ مالی سال کے مقابلیمیں16.66فیصد زیادہ ہیں۔بلوچستان پولیس کے مختلف شعبہ جات کے ملازمین کو اسپیشل الاؤنس چالیس فیصد کے حساب سے 2011کے بُنیادی تنخواہ پر دیا گیا تھا.جس کی زیادہ سے زیادہ حد چار ہزار روپے ماہانہ تھی. اِن شعبہ جات میں سی .آئی.ڈی ، اے ٹی ایف اورہائی وے پولیس کے ملازمین شامل ہیں اِسی طرح پولیس ٹریننگ اسکول کے ملازمین کوبھی تیس فیصد کے حساب سے یہ الاؤنس 2011کے بُنیادی تنخواہ پر مل رہا تھا جسکی زیادہ سے زیادہ حد تین ہزار روپے ماہانہ تھی اب حکومت بلوچستان نے یہ فیصلہ کیا کہ یکم جولائی 2013سے پولیس کی تمام شعبہ جات بشمول دونئے شعبہ جات جس میں(Rapid Response Group)اور اسپیشل برانچ کے ملازمین شامل ہیں کو یہبھی اسپیشل الاؤنس چالیس فیصد کے حساب سے 2011کی بُنیادی تنخواہ پر دیا جائیگا اور اس کی زیادہ سے زیادہ حد چار ہزار روپے سے بڑھا کر چھ ہزار روپے ماہانہ کر دی جائے گی.فورسز کے اہلکاروں کیلئے رِسک الاؤنس کی تجویز بھی دی گئی ہے.صوبائی امن و امان کی فورسز کیلئے ایک جامع پیکیج کی سفارش کی جاتی ہے. تفصیل اِس طرح ہے انہوں نے کہا کہ آنے وا لے مالی سال کے دوران کوئٹہ اور کئی دیگر اضلاع میں رہائشی بیرکس اور کوارٹرز و فلیٹس تعمیر کئے جائینگے.پولیس گرائمر اسکول کی تعمیر آنے والے مالی سال کے دوران کی جائے گی. ہائی ویز پر عوام کی بے خطر اور پرامن سفر کو ممکن بنانے کیلئے 286.592 ملین روپے پولیس اورلیویز فورس کو دیئے جائینگے۔پولیس اور لیویز فورس کو موجودہ حالات اور چیلنجز سے نمٹنے کے لئے تیار کیا جائے گا۔اس سلسلے میں اسلحہ کی خریداری کیلئے135 ملین روپے کا بندوبست کیاجائے گا ۔ پولیس، لیویز اور بلوچستان کانسٹیبلری کو جدید خطوط پر استوار کرنے اورامن و امان برقرار رکھنے کے لیے اگلے مالی سال 2013-14میں ضروری آلات فراہم کرنے کی غرض سے غیر ترقیاتی بجٹ میں تقریباً 315ملین روپے مختص کیے گئے ہیں.دہشت گردی اور دیگر جرائم کو جڑ سے اُکھاڑنے کیلئے سی آ ئی ڈی (CID)کی اہلیت کو مزید مؤثر بنایا جائے گا. تجربہ کار انٹیلی جینس آفیسران کو بھرتی کیا جائے گا. جدیدٹیکنالوجی خرید کر معلومات کو یکجا کیا جائے گا. سی آئی ڈی پولیس اسٹیشن کاقیام اور اس کے ضروری دفاتر کی تعمیر کا کام آنے والے مالی سال کے دوران مکمل کر لیا جائے گاانسدادِ دہشت گردی کی فورس (ATF)کو مزید مؤثر بنانے کے لیے کوئٹہ میں ATFکالج قیام کرنے کے سفارش کی جاتی ہے.انہوں نے کہا کہ بلوچستان کی معیشت بُنیادی طور پر زرعی نوعیت کی حامل ہے. معیشت کی عمومی ترقی کیلئے زراعت کو ترقی دینا ضروری ہے. ہمیں طویل خُشک سالی، بجلی کی مسلسل لوڈ شیڈنگ جیسے مسائل اور ان سے زراعت کو پہنچنے والے نقصانات کا بخوبی اندازہ ہے. صورتحال کی بہتری کیلئے تمام ضروری اقدامات کیے جائیں گے. پانی کی کمی ایک اہم مسئلہ ہے. زمینی حقائق کومدِنظر رکھتے ہُوئے زراعت کی ترقی کے لیے قابلِ عمل حکمت عملی تیار کررہے ہیں. ہماری حکومت قطراتی طرز پر آبپاشی کو ترجیحی بُنیادوں پر اختیار کریگی . ٹیوب ویلوں کو چلانے کے لیے مہنگی بجلی کی بجائے شمسی توانائی کے استعمال کو اختیار کیا جائے گا. اِس سلسلے میں حکومت نجی شعبے کا تعاؤن و اشتراک حاصل کرے گی . میں آپ کی وساطت سے اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ ہماری حکومت گرین بلوچستان پروگرام(Green Balochistan Programme) کے تصور کے تحت صوبے میں زرعی ترقی کے ایک نئے دور کا آغاز کریگی. حکومت زراعت کو بلوچستان کے عوام کی ترقی و خوشحالی میں ریڈھ کی ہڈی تصور کرتے ہُوئے اِس پر خصوصی توجہ دے گی.ترقیاتی و غیر ترقیات بجٹ میں آنے والے مالی سال 2013-14 میں محکمہ زراعت کیلئے 7.870بلین روپے مختص کئے گئے ہیں۔جوموجودہ مالی سال کے مقابلے میں 30فیصد زیادہ ہیں۔ آنے والے مالی سال کے ترقیاتی پروگرام کے تحت سرسبزبلوچستان پروگرام شُروع کیا جائے گا جسکے لیے ایک ارب روپے مختص کرنے کی سفارش کی جاتی ہے.آبی وسائل کو ترقی دی جائے گی. آب پاشی کے نظام کو بہتر کرنے کیلئے تمام بارانی دریاؤں پر ڈیم ، چیک ڈیم تعمیر کئے جائیں گے زیر زمین آبی وسائل کو استعمال میں لانے کے لیے دیہاتوں میں بجلی کا جال بچھایاجائے گا.زرعی صنعت کے فروغ کیلئے مشینری کے استعمال کو یقینی بنایا جائے گا.زرعی پیداوار خصوصاًپھلوں اور کھجور کی پیداوار کو بہتر کرنے ، پروسیسنگ اور پیکنگ کے شعبے میں کسانوں کی رہنمائی ، مدد اور کولڈ اسٹوریج کے علاوہ چھوٹی صنعتوں کے قیام کیلئے خصوصی اقدامات اُٹھائے جائیں گے بین الاقوامی منڈیوں تک اِس کی پہنچ یقینی بنائی جائے گی.سبی، قلات، جعفرآباد، بارکھان، قلعہ سیف اللہ، ڈھاڈر، نوشکی اورآواران کے مقام پر زرعی ورکشاپس قائم کیے جائینگے جس پر 160ملین روپے کی لاگت آئے گی. زرعی پیداوارکو بڑھانے کی غرض سے تحقیق (Research)کی مد میں 150ملین روپے رکھے گئے ہیں.بیج کی فراہمی کی مد میں 50ملین روپے دیئے جائینگے.کپاس کی کاشت کی حوصلہ افزائی کیلئے 50ملین روپے مختص کیے گئے ہیں.لسبیلہ کی زرعی یونیورسٹی میں میرین ریسرچ و ترقی سینٹر کے قیام کیلئے 15ملین روپے رکھے گئے ہیں.صوبہ میں موجود بلڈوزر مشین کافی پُرانی اور ناکارہ ہو چُکی ہیں. اگلے مالی سال کی PSDP میں 2.124ارب روپے کی لاگت سے 200نئے بلڈوزر خریدے جائیں گے.انہوں نے کہا کہ دیہی علاقوں کے بُنیادی انفراسٹرکچر کو کار آمد بنانے میں اہم کردار سے انکار نہیں کیا جاسکتا. دیہی آبادی کا شہروں کیجانب رجحان میں خطرناک حد تک اضافے کو کنٹرول کرنا اُس وقت ہی ممکن ہو سکتا ہے جب دیہی علاقوں میں زندگی کی ضروریات کو یقینی بنایا جائے . اس مقصد کو حاصل کرنے کیلئے آپ کی مخلوط حکومت کا عزم ہے کہ اس محکمے کے تمام ضلعی دفاتر کو بِلاتاخیرفعال کیا جائے اس مقصد کے حصول کیلئے آنے والے مالی سال کے دوران لوکل گورنمنٹ انتخابات اور لوکل کونسلز کیلئے چھ ارب روپے مختص کیے گئے ہیں کوئٹہ ہم سب کا شہر ہے اور بلوچستان کے گلدستہ کاہر پُھول یہاں اپنی بہار دِکھارہاہے. اِس شہر میں بلوچ، پشتون، ہزارہ اور آباد کار سب موجود ہیں. لیکن مجھے افسوس ہے کہ یہاں ٹریفک کا نظام ناگفتہ بہہ ہے . نکاسی آب کا کوئی موثر انتظام نہیں صفائی سُتھرائی کی صورت حال نہایت ناقص ہے اور سڑکوں کا حال نہایت خستہ ہے. ماضی کے لِٹل پیرس کے روایتی حُسن کی بحالی اور صوبائی دارالحکومت کے شہریوں کوبُنیادی سہولتوں کی فراہمی کے مسئلے پر سب کو توجہ دینی چاہئیے. کوئٹہ سے اس ایوان کے چھ اراکین کے ساتھ ساتھ پُورے ایوان کو کو ئٹہ کے مسائل کے حل میں متحرک تعاؤن کرنا چاہئیے. ہماری حکومت کوئٹہ کی روایتی خُوبصورتی بحال کرنے اور شہریوں کو بُنیادی سہولتوں کی فراہمی کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے گی.پندرہ اضلاع میں صوبائی سینیٹیشن (Santitation) منصبوبہ پر عمل درآمد کے لئے ایک اسکیم شروع کیجائے گی جس پر لاگت کا تخمینہ تقریباً 405 ملین روپے ہیں.ضلعی ترقی پروگرام کے تحت 1950ملین روپے مختص کیے گئے ہیں.تیس اضلاع میں دیہی ترقی کے پروگرام کیلئے 150 ملین روپے مختص کیے جائیں گے.شہری انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے کے لیے 52میونسپل کمیٹیوں کو 260 ملین روپے کی گرانٹ دی جائے گی.صوبے کے تمام اضلاع کیلئے ایک ایک آگ بُجھانے والی گاڑی لوکل کونسلز فنڈ سے خریدی جائیں گی. اسی طرح صوبائی دارالحکومت کی حالت میں بہتری کیلئے کوئٹہ شہرمیں نئے پارکس بنانے کیلئے100ملین روپے مختص کیے گئے ہیں.کوئٹہ شہر کے 52میونسپل ٹاؤن کمیٹیوں کو گندگی کو ٹِھکانے لگانے کی جدید مشینری، آگ بُجھانے والی گاڑیاں اور سیوریج نظام کی بہتری کیلئے 226 ملین روپے سے زائد رقم فراہم کی جائے گی.کوئٹہ شہر میں چار پارکنگ کے پلازے تعمیر کیے جائینگے جس پر 150ملین روپے کی لاگت آئی گی.انہوں نے کہا کہ سڑکیں عوام کی بنیادی ضروریات میں شامل ہیں۔ نئی سڑکوں کی تعمیر اور موجودہ سڑکوں میں بہتری لانے کیلئے ہر ممکن کوشش کی جائے گی ۔ صوبے کے وسیع علاقے جو زیادہ فاصلے پر مشتمل ہیں اور پھیلی ہُوئی آبادی کی وجہ سے اِس مد میں انتہائی زیادہ رقم کی ضرورت ہے لہذا اس شعبہ میں ہماری مخلوط حکومت نے خطیر رقم مختص کی ہے اس کے علاوہ دیگر ضروری سرکاری عمارات کی تعمیر بھی اس میزانیہ کا حصہ ہے .کوئٹہ شہر کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے دو فلائی اوورز کی اسکیمات پرکام کی تاخیری حربے ہرگزبرداشت نہیں کیے جائیں گے ۔اِن میں سے ایک فلائی اوور سریاب اور دوسرے کی کوئلہ پھاٹک کے مقام پرتعمیر جاری ہے۔ نئے مالی سال کے دوران سڑکوں کی کل 267 اسکیمات کیلئے مجموعی طور پر 8.171بلین روپے مختص کئے گئے۔ ان ا سکیمات کو آنے والے ما لی سا ل 2013-14 کی پی ۔ایس ۔ڈی۔پی (PSDP) میں شامل کر دیا گیا ہے۔ کراچی میں بلوچستان ہاؤس کی تعمیر کیلئے 20ملین روپے مختص کیے گئے ہیں.ماسٹر پلان کے تحت سول سیکرٹریٹ کوئٹہ میں پارکنگ کمپلیکس اور نئے بلاک کی تعمیر کیلئے 150ملین روپے رکھے گئے ہیں.کوئٹہ شہر میں آفیسران کیلئے بیس فلیٹس اور چالیس عدد بیچلر کمرے بنانے کیلئے 150ملین روپے رکھے گئے ہیں.کوئٹہ جناح روڈ پر میوزیم اور صوبائی لائبریری کی تعمیر کی غرض سے 50ملین روپے رکھے گئے ہیں.قائداعظم ریزیڈنسی زیارت کی مرمت و تزئین وآرائش کی مد میں 20ملین روپے مختص کیے گئے ہیں.ہائی کورٹ کے ججوں کی رہائش کے لیے دو نئے بنگلوں کی تعمیر کی جائے گی جس پر 30ملین روپے خرچ آئے گی.عدلیہ کے سیشن ڈویژن کوئٹہ بمقامِ زیارت اور سیشن ڈویژن خُضداربمقامِ وڈھ کی تعمیرکیلئے 30ملین روپے مختص کیے گئے ہیں.انہوں نے کہا کہ صوبائی معیشت میں امور حیوانات کاحصہ 48% فیصد بنتا ہے۔ مال مویشیوں کا دیہی ترقی میں اضافے اور غریب عوام کی خوشحالی سے ایک گہرا تعلق ہے۔ صوبہ بلوچستان میں امور حیوانات و ڈیری ترقی کیلئے ڈیری فارمزکا ایک وسیع جال بچھا ہو ا ہے۔ جس کے زریعے سے مصنوعی تخم ریزی ، مال مویشیوں کی صحت کا خیال اور امراض کی تشخیص کے ساتھ ساتھ مال مویشی کے پیداوار میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ 2006 کی مال شماری کے مطابق صوبے میں بھیڑوں کی تعداد ایک کروڑ اٹھائیس لاکھ اور بکریوں کی تعداد ایک کروڑ ستر لاکھ ہے آنے والے مالی سال 2013-14 میں محکمہ لائیو سٹاک کیلئے ترقیاتی وغیر ترقیاتی مد میں 2.673بلین روپے مختص کیے گئے ہیں۔ جوموجودہ مالی سال کے مقابلے میں32 فیصد زیادہ ہیں۔نئے مالی سال کے دوران جانوروں کے مختلف بیما ریوں کا علاج معالجہ کیاجائے گا۔اس ضمن میں تقریباََلاکھوں جانوروں کا علاج کیاجائے گا۔ جسکے لیے رقم مختص کی گئی ہے. صوبے کے گلہ بانوں کیلئے مقابلے کی بنیاد پر ضلع وار مراعتی پیکیج کیلئے اگلے مالی سال میں پانچ کروڑ روپے کی رقم مختص کی جارہی ہے۔ اس رقم سے ہر ضلع میں اول ، دوئم اورسوئم آنے والے گلہ بانوں کوانعامات دےئے جائینگے۔ غربت میں کمی کرنے کیلئے دیہی علاقوں میں 260ملین روپے سے دیہی (Rural)پو لٹری سپورٹ پروگرام شُروع کیا جائے گا. 223ملین روپے کی لاگت سے ژوب، خُضدار، تُربت، جعفرآباد اورقلعہ عبداللہ میں مال مویشیوں کی مارکیٹیں قائم کی جائینگی.ہم اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ مالی سال 2013-14کیلئے امُورِ حیوانات کیلئے مزید انقلابی اقدامات کی ضرورت ہے اور اس سیکٹر میں قابلِ عمل منصوبوں اور اقدامات کیلئے اضافی فنڈز در کار ہونگے.انہوں نے کہا کہ بلوچستان کی ترقی و خوشحالی میں ماہی گیری بُنیادی کردار ادا کرسکتی ہے. بلوچستان کی طویل ساحلی پٹی اور سمندری حیات سے مالا مال سمندر اِس وقت بھتہ مافیا کی نظر ہو چُکا ہے. غیر قانونی جالوں کے استعمال نے لوگوں کو نان شبینہ کا محتاج بنادیا ہے. اِس وقت کروڑوں روپے براہ راست افراد کی جیبوں میں جارہے ہیں. جس سے صوبے کے عوام کو بے روزگاری اور سمندری حیات کی نسل کُشی کے علاوہ کُچھ بھی ہاتھ نہیں آرہا ہے بلوچستان کی طویل ساحلی پٹی سے بلوچستان اور ساحل بلوچستان پر آباد لوگوں کو کُچھ حاصل نہیں ہورہا ہے ایک مخصوص مافیا نے فِشریز ڈیپارٹمنٹ کو یر غمال بنا رکھا ہے. حکومت فوری طور پر بلوچستان میں غیر قانونی شکار اور جالوں کے استعمال پر مکمل پابندی لگا دے گی اور مقامی ماہی گیروں کے حالات زندگی اور کاروبار کو بہتر کرنے کیلئے خاطر خواہ اقدامات اُٹھائے گی.ترقیاتی وغیر ترقیاتی اخراجات کے مد میں آنے والے مالی سال 2013-14 میں محکمہ ماہی گیری کیلئے 1.483بلین روپے مختص کیے گئے ہیں۔ جو موجودہ مالی سال کے مقابلے میں تقریباً185 فیصدزیادہ ہیں۔ غیر قانونی جالوں کے استعمال اور ٹرالرنگ پر مُکمل پابندی عائد کی جائے گی جس سے سمندری حیات کی نسل کُشی ہوتی ہے.بلوچستان میں موجود تمام ہاربرز کی حالت دُرست کرکے اِن کو قابل استعمال بنایا جائے گا اور ہاربروں پرہونے والے کرپشن کے خلاف اقدامات کیے جائینگے.پسنی میں سمندری کٹاؤ پر فوری اقدامات اُٹھاتے ہُوئے اور پسنی شور پروٹیکشن بندمیں ہونے والی مالی بدعنوانی اور بے ضابطگی کا نوٹس لیا جائے گا.ماہی گیروں کو فوری طور پر مزدور تسلیم کرکے سوشل سیکورٹی اور دیگر قانو نی مراعات کا حقدار بنایا جائے گا.ماہی گیری کی صنعت کو ترقی دینے کیلئے ماہی گیروں کو آسان اقساط پر قرضہ دیا جائے گا.گوادر، پسنی اور اورماڑہ میں مچھلیوں کی پروسسنگ و پیکنگ کیلئے اقدامات اُٹھائے جائینگے.ماہی گیروں کو ٹھیکداروں کی لُوٹ کھسوٹ سے بچانے کے لیے قانون سازی کی جائے گی اور ماہی گیروں کو مکمل تحفظ فراہم کیا جائے گا.مچھلیوں کی عالمی معیار کے مطابق پروسسینگ اور پیکنگ کو یقینی بنانے کیلئے ماہی گیروں کو ٹریننگ دی جائے گی اور اِن کو مالی مدد و سپورٹ فراہم کی جائے گی. ہماری حکومت پسنی فش ہاربرکو جلد از جلد بحال کرنے کیلئے اقدامات کرے گی. اسی طرح سے اقوام متحدہ کی تنظیم بین الاقوامی فنڈ برائے زرعی ترقی( ایفاد۔ IFAD ) کی مدد سے ہمارے ساحلی پٹی کے دونوں ضلعوں یعنی گوادر اور لسبیلہ میں تین ارب روپے کی خطیر رقم سے ماہی گیروں کوکوسٹ ٹو مارکیٹ روڈ فراہم کرنے کے منصوبے کو ہماری حکومت مقررہ قت سے پہلے کامیابی سے پایہ تکمیل تک پہنچائے گی۔ اسی اسکیم کے تحت چار جیٹیز بھی بنائی جائینگی اور انکے ساتھ ضروری سہولیات جیسے آکشن ، ہال فیول ٹینک اورکشتیوں کی مرمت کیلئے ورکشاپ بھی ان جیٹیز کے ساتھ بنائی جائینگی۔ یقیناًیہ اقدامات ہمارے صوبے کی ساحلی پٹی میں خوشحالی کی نوید ثابت ہونگے ۔200ملین روپے کی لاگت سے پسنی کے مقام پر فِش پروسیسینگ یونٹ کو فعال کیا جائے گا.ماہی گیری کے جہازوں کو اپ گریڈ کیا جائے گا جس پر500ملین روپے کی لاگت آئے گی.تین سو ملین روپے کی لاگت سے اورمارہ اور ڈامب میں ریسرچ سینٹر قائم کیے جائینگے. شمالی علاقوں میں فِش کلچر کو متعارف کرنے کیلئے فنگر لنگز مہیاکرنے کی کوششوں کو تیز کردیا جائیگاتاکہ ژوب، قلع سیف اﷲ جیسے اضلاع میں پانیوں /بندات میں فش کلچرنگ کی جاسکے۔بلوچستان کے ساحلی پٹی کے ماہی گیری کے علاقوں میں جہازوں کے آٹھ مرمتی ورکشاپس تعمیر کیے جائینگے جس کیلئے تقریباً17ملین روپے مختص کیے گئے ہیں.25ملین روپے کی لاگت سے سُبکزئی ڈیم ژوب میں سیمی کولڈفِش ہیچری کا قیام عمل میں لایا جائے گا.ٹرالرنگ کے خاتمے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں گے تاکہ غریب ماہی گیروں کو معاشی تحفظ مِل سکے.انہوں نے کہا کہ بلوچستان ، معدنی دولت سے مالا مال قومی وحدت ہے. بلوچستان کے معدنی وسائل سے پُورا مُلک ترقی کرچُکا ہے لیکن اس کے خاطر خواہ فوائد سے بلوچستان کے عوام کو محروم رکھاگیا ہے. تیل وگیس اور کاپر وگولڈ کے وسیع ذخائر سے حاصل آمدنی سے بلوچستان کے عوام محروم ہیں. تیل و گیس اور دیگر معدنی وسائل بُنیادی طور پر بلوچستان کے عوام کی قومی دولت ہیں جہاں ایک طرف وفاقی حکومت دیگر بین الاقوامی کمپنیاں ان کی لُوٹ کھسُوٹ میں ملوث ہیں وہاں علاقائی طاقت ور شخصیات بھی اِسے ذاتی خاندانی جاگیر تصور کرتے ہیں. حکومت معدنی دولت کو بلوچستان کے عوام کی قومی دولت تصور کرتے ہُوئے اِسے بلوچستانی عوام کی ترقی و خُوشحالی کا ذریعہ بنائیگی. ترقیاتی و غیر ترقیاتی اخراجات کی مد میںآنے والے مالی سال 2013-14 میں محکمہ معدنیات کیلئے 1.609بلین روپے مختص کیے گئے ہیں۔ جو موجودہ مالی سال کے مقابلے میں تقریباً 245 فیصد زیادہ ہیں۔ گیس و تیل سے بلوچستان کو حاصل آمدنی کو بلوچستان کی ترقی کے لیے استعمال کیا جائے گا.بلوچستان کی معدنی دولت پرغیر قانونی قبضے کے تمام لیزوں کو کینسل کیا جائے گا خصوصاًگُزشتہ ادوار میں سیاسی نمائندوں کوحاصل غیر قانونی لیز اور قبضے فوراً ختم کیے جائیں گے.مائیننگ انڈسٹری میں اجارہ داری کا خاتمہ کیا جائے گا.مائیننگ انڈسٹری کی ترقی پر خاص توجہ دی جائیگی اس کی ترقی و توسیع میں جدید آلات ومشینری کے استعمال کی حوصلہ افزائی کی جائے گی.معدنی شعبہ میں سرمایہ کاری کی مد میں ساڑھے چار ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جو کہ ریکوڈک اور دیگر منافع بخش منصوبوں پر خرچ کیے جائینگے.حکومتی وصولیوں میں اضافے کے لیے کوئلے کے علاوہ باقی معدنیات پرڈ یوٹی لگا دی گئی ہے.معدنیات سے پیدا شُدہ آمدنی سے ایک مخصوص حصہ اِس ضلع پر خرچ ہوگا جہاں سے یہ معدنیات نکل رہے ہیں.انہوں نے کہا کہ محفوظ اور صاف پینے کا پانی بنیادی انسانی ضرورت اور حق ہے۔مختلف تحقیقات کے مطابق ستر فیصد بیماریاں گندے پانی کے استعمال کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ صاف پانی کی فراہمی سے نہ صرف لوگوں کی صحت اچھی رہے گی بلکہ اس سے علاج معالجے پر اٹھنے والے خرچے سے بھی ہمارے صوبے کے غریب لوگ بچ سکتے ہیں۔ آپکی حکومت بلوچستان کے شہروں اور دیہی علاقوں میں رہنے والے لوگوں کو پینے کاصاف پانی فراہم کرنے کو ترجیہی اہمیت دیگی۔اس سلسلے میں 44 جاری اور8 نئی اسکیموں کیلئے2.380بلین روپے سے زیادہ کی رقم رکھی گئی ہے۔ ترقیاتی و غیر ترقیاتی اخراجات کی مد میں آنے والے مالی سال 2013-14 میں اس شعبے کے لیے4.796بلین روپے مختص کئے گئے ہیں۔ جو موجودہ مالی سال کے مقابلے میں 8 فیصد زیادہ ہے۔ پبلک ہیلتھ ڈپارٹمنٹ کے تحت مختلف پراجیکٹ پر کام کو تیز کرنے کے احکامات دے دیئے گئے ہیں۔ اِن میں خاص طور پر تمام یونین کونسلوں میں فلٹریشن پلانٹس کا لگانا شامل ہے۔ آکڑہ کور ڈیم ، جو گوادر واٹر سپلائی اسکیم کے تحت گوادر اور اسکے قرب و جوار کی آبادی کیلئے پانی کا واحد ذریعہ ہے، میں سلٹیشن کی وجہ سے اسکی گنجائش میں کافی کمی آچکی ہے۔ اس مسئلے کے حل کیلئے اقدامات کیے جائینگے۔گوادر میں صاف پانی کی ترسیل کو یقینی بنانے کیلئے کھارے پانی کو صاف کرنے والے پلانٹس کو فعال کیا جائے گا.چار سو سے زائد پُرانے اور غیر فعال واٹر سپلائی اسکیموں کی توسیع ومرمت کیلئے 1000ملین روپے مختص کیے گئے ہیں.سیلاب زدہ علاقوں میں پانی صاف کرنے کے پلانٹ لگانے کی غرض سے 50ملین روپے رکھے گئے ہیں. گڈانی، ڈامب گوادر، جیوانی اور لسبیلہ میں پانی صاف کرنے والے پلانٹس لگانے کے غرض سے 20ملین روپے رکھے گئے ہیں.واسا (WASA)کوئٹہ کیلئے پمپنگ مشینری و آلات کی تبدیلی وخریداری کی مد میں 150ملین روپے مختص کیے گئے ہیں. انہوں نے کہا کہ زراعت ہماری معیشت کیلئے کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ اور اسکی ترقی کیلئے پائدار اور معیاری نظام آبپاشی کی اہمیت سے بھی کوئی ذی شعور انسان انکار نہیں کرسکتا۔ آپکی حکومت نے اس اہم شعبے میں نوجوانوں کو ملازمت کے مواقع مہیا کرنے اور زیر زمین پانی کی سطح بلند کرنے کیلئے پائیدار نظام آبپاشی اور ڈیلے ایکشن ڈیمز کی تعمیر اور دیکھ بھال پر خصوصی توجہ دینے کا اصولی فیصلہ کیا ہے۔ترقیاتی وغیر ترقیاتی اخراجات کی مد میں آنے والے مالی سال 2013-14 میں محکمہ آب پاشی کیلئے 4.662بلین روپے مختص کیے گئے ہیں۔جو موجودہ مالی سال کے مقابلے میں تقریباً 4 فیصد زیادہ ہیں۔اس مد میں PSDPکے تحت تقریبا 2ارب 80کروڑروپے رقم مختص کی گئی ہے. کئی بڑی اسکیمات وفاقی حکومت کے تعان سے صوبے کے مختلف حصوں میں جاری ہیں ۔ صوبائی PSDP میں بھی کئی آبپاشی کی اسکیمات شامل ہیں۔صوبہ میں ڈیمز کی تعمیرات کیلئے ایک ارب روپے رکھے گئے ہیں.انہوں نے کہا کہ موجودہ عوامی حکومت نے صوبے میں صنعتی سرگرمیوں میں اضافے کو اپنی اولین ترجیحات میں شامل کیا ہے۔ اس سلسلے میں انڈسٹریل اسٹیٹس کے قیام اور اس سے روزگار کے مواقع میں اضافہ جیسے اقدامات شامل ہیں۔ انڈسٹریل اسٹیٹس میں صنعتی یونٹوں کے بارے میں اعداد و شمار کا ریکارڈ رکھنا اورسرکاری و نجی شعبوں میں قائم صنعتی یونٹوں میں نصب بوائلرز کا معائنہ کرنا سر فہرست ہیں۔ اس وقت صوبے کے مختلف ضلعوں میں انڈسٹریل اسٹیٹ موجود ہیں۔ جن میں کوئٹہ ، ڈیرہ مراد جمالی، گوادر اور لسبیلہ شامل ہیں، جبکہ بوستان ، خضدار، کیچ اور پسنی میں نئے انڈسٹریل اسٹیٹس کے قیام کیلئے خاطر خواہ اقدامات کئے جائینگے۔ اس وقت صوبے بھر میں سمال انڈسٹریز کے تحت قائم ساٹھ سے زائد تربیتی مراکز ہیں جن میں سہولیات کو بڑھایا جارہا ہے۔ تاکہ ان مراکز سے تربیت حاصل کرنے کے بعد مقامی لوگ روایتی دستکاری کے ذریعے اپنا روزگار خود پیدا کریں اور خود کفیل ہوں۔ ان اداروں کی بہتر کارکردگی سے سے غربت کو کم کرنے میں مدد مل سکے گی ۔ آنے والے مالی سال 2013-14 میں محکمہ صنعت و تجارت کیلئے912.699ملین روپے مختص کیے گئے ہیں۔جو موجودہ مالی سال کے مقابلے میں تقریباً 30 فیصد زیادہ ہیں۔ اسپیشل اکنامِک زون اتھارٹی بلوچستان جس کے چیئرمین وزیر اعلی صاحب ہیں کے قیام کیلئے ابتدائی طور پر سات کروڑرکھے جا نے کی تجویز ہے.کوئٹہ اور لسبیلہ میں اسپیشل اکنامِک زونز کا قیام عمل میں لایا جائے گا جس سے صوبے میں مزید صنعتوں کا قیام عمل میں آسکے گا اور بیروزگاری میں خاطر خواہ کمی ہوگی.ضلع سبی میں انڈسٹریل اسٹیٹ کے قیام کیلئے ابتدائی کام شُروع کردیاگیا ہے جبکہ حب، ڈیرہ مُراد جمالی اور کوئٹہ میں انڈسٹریل اسٹیٹ کے قیام کو جلد پایہ تکمیل تک پہنچا دیا جائے گا اس کے علاوہ حب ،گوادر، کیچ اور مُسلم باغ میں بھی اس مقصد کیلئے زمین حاصل کر لی گئی ہے جس پر جلد ہی ترقیاتی کام کا آغاز کردیا جائے گا.انڈسٹریل اسٹیٹ بوستان اور کوئٹہ میں وفاقی حکومت کے تعاون سے کام ہو رہا ہے. اگر فنڈز بر وقت جاری کئے گئے تو ترقیاتی کا م جلد پایہ تکمیل کو پہنچ سکیں گے. فنڈز کی بروقت ریلیزکے لیے وفاقی حکومت سیدرخواست کی گئی ہے سمال انڈسٹری نے بلوچستان کے مختلف اضلاع میں قالین بافی، ٹیلرنگ اور بلوچی دستکاری کے مختلف مراکز قائم کئے ہیں جہاں ہُنر مند عملہ مقامی طور پر غریب اور نادار لوگوں کو فنی تربیت فراہم کر تا ہے.انڈسٹری ڈپارٹمنٹ نے B-NAVTECکے تعاون سے ایک منصوبہ تیار کیا ہے جس کے تحت قالین بافی میں ہر تربیت یافتہ شخص کو فنی تربیت مکمل کرنے کے بعد ایک قالین بافی کی کھڈی اور ا یک مرتبہ خام مال مفت فراہم کیا جائے گا تا کہ وہ اپنا روزگارخُودکما سکیں. تربیت کے دوران ماہوار وظیفہ جو کہ 1200/-روپے ماہانہ تھا اِسے بڑھا کر 3000/-روپے کرنے کی تجویز ہے.افغانستان اور ایران کے ساتھ مشترکہ سرحدی منڈی(Common Border Markets) قائم کی جائے گی.انہوں نے کہا کہ معلومات عامہ کے شعبے کی اہمیت سے کوئی بھی صاحب عقل انسان انکار نہیں کرسکتا۔ خاص طور پر آجکل کے دور میں جمہوری حکومتوں کو عوام کی نبض پر ہاتھ رکھنے کیلئے معلومات عامہ کا ہی سہارا لینا پڑتا ہے۔ یہ شعبہ حکومت کی کمزوریوں اور عوام کی خواہشات کو اُجاگر کرتا ہے۔ اس شعبے میں جرنلسٹ ویلفیئرفنڈ اور ہاکرز ویلفئر فنڈکو مزید مؤثر بنایا جائے گا۔ ہماری حکومت سمجھتی ہے کہ صوبے کے جرنلسٹ اور اِس شعبے سے متعلق افراد کی مہارتوں کو بہتر کرنے کیلئے حکومتی مدد کی ضرورت ہے. اور ہم صوبے کے صحافی حضرات کے ساتھ مِل کر بلوچستان اکیڈمی فار جرنلزمکے قیام کیلئے مکمل مالی تعاؤن کرینگے۔ کوئٹہ پریس کلب کیلئے 10لاکھ کے گرانٹ کو بڑھا کر 20لاکھ روپے کیا جائے گا اورتمام ضلعوں کے پریس کلبز کو دو دو لاکھ روپے دئیے جائینگے.انہوں نے کہا کہتوانائی صوبے کی معاشی ترقی کیلئے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ موجودہ توانائی کے بحران نے تمام شعبوں پر سنگین اثرات مرتب کئے ہیں۔اس بحران کو ختم کرنے کیلئے ہماری صوبائی حکومت کوئی کثر نہیں اُٹھارکھے گی۔ خوش قسمتی سے بلوچستان دو بارہ قابل استعمال توانائی (Renewable Energy) کے وسائل سے مالا مال ہے۔ ہوا شمسی اور جیو تھرمل کے ذرائع سے وافر توانائی حاصل کی جاسکتی ہے۔آنے والے مالی سال 2013-14 میں محکمہ توانائی کیلئے 8.185بلین روپے مختص کیے گئے ہیں۔ جو موجودہ مالی سال کے مقابلے میں تقریباً 34 فیصد زیادہ ہیں۔ دو ارب روپے کی لاگت سے شمسی توانائی کے پراجیکٹ شُروع کیے جائیں گے۔ جس سے تقریباََ تین سو دیہاتوں کو بجلی فراہم کی جائیگی۔ زراعت کے بیس ہزار ٹیوب ویلز کو بجلی کے رعایتی نرخوں پر چلایا جا رہاہے۔جس پرپانچ ارب چالیس کروڑ روپے خرچ ہورہے ہیں۔جس سے بجلی کی نرخوں میں اضافے کی وجہ سے مالی مسئلہ پیش آرہا ہے۔اس مالی بوجھ کو کم کرنے کیلئے رعایتی نرخ پر چلنے والے ٹیوب ویلز کو شمسی توانائی پر منتقل کیا جائے گا۔ سرکاری عمارتوں کو بھی شمسی توانائی کا نظام پر لایا جائیگا۔ اسی طرح حکومت کے ماتحت چلنے والے واٹر سپلائی سکیموں کوبھی شمسی توانائی پرلایا جائے گا . اِن دونوں منصوبوں کیلئے 45کروڑ تجویز کیے گئے ہیں. صوبے کے مختلف دیہاتوں کو بجلی کے نئے ٹرانسفرمر کی فراہمی اور پُرانے ٹرانسفرمرز کی مرمت کیلئے پانچ سوملین روپے مختص کیے گئے ہیں. کوئلے سے توانائی پیدا کرنے کے منصوبوں پرپانچ سو ملین روپے کی سرمایہ کاری کی جائے گی.دوبارہ قابل استعمال توانائی کے ذرائع کو استعمال میں لانے کیلئے مختلف اسیکمیں شُروع کی جائینگی.بلوچستان انرجی کمپنی کو باقاعدہ سے فعال کیا جائے گا اور انوسٹمنٹ کی مدمیں اسکے لیے اگلے مالی سال میں ڈھائی ارب روپے رکھے گئے ہیں.انہوں نے کہا کہ آنے والے مالی سال 2013-14 میں محکمہ کھیل کیلئے 204.487ملین روپے مختص کیے گئے ہیں۔ جو موجودہ مالی سال کے مقابلے میں تقریباً 13% فیصد زیادہ ہیں۔ صوبے میں مختلف کھیلوں کی سرگرمیوں کیلئے گرانٹ چھ ملین سے بڑھا کر پندرہ ملین تک کرنے کی تجویز ہے.صوبے میں تحصیل کی سطح پر کھیلوں کی ترقی کیلئے دفاتر کھولے جائینگے.صوبوں کے مابین بین الاصوبائی اور مُلکی سطح پر کھیلوں کے مقابلوں میں ہمارے مرد و خواتین کھلاڑیوں کی بھرپُور حوصلہ افزائی کی جائے گی.اسکول اور کالج کی سطح پر کھیلوں کو فروغ دے کر نئی نسل میں اہل کھلاڑی تلاش کیے جائینگے.کوئٹہ میں ایوب اسٹیڈیم کی خُوبصورتی کیلئے PSDPمیں 4 کروڑ 30لاکھ کا نیا منصوبہ شامل کیا جا رہا ہے.کوئٹہ میں اسپنی روڈ پر ایک نئے اسٹیڈیم کی تعمیر کیلئے PSDPمیں ابتدائی طور پر 7کروڑ روپے رکھے جا رہے ہیں.انہوں نے کہا کہ ہر حکومت کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ اپنی انتظامی حدود میں عوام کو باعزت روزگار فراہم کرے۔مزید یہ کہ روزگار کے قابل نوجوانوں میں ہنر مندی کی تخلیق کرے۔ آپکو علم ہوگا کہ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان میں قابلِ روزگار آبادی کل آبادی کا 40% ہے۔جبکہ موجودہ اعداوشُمار کے مطابق تقریباًسات سے آٹھ لاکھ افراد بے روز گار ہیں، بیروزگاری کی شرح دیہی علاقوں میں شہری علاقوں کی نسبت زیادہ ہے۔ اسی طرح ہنر سے محروم اور کم تعلیم یافتہ بیروزگاری کاخاص طور پر شکار ہیں۔ ہماری اس کم آبادی والے صوبے میں قابل روزگار آبادی میں اتنی بڑی تعدادکابے روزگار ہونا لمحہ فکریہ ہے۔ اس حقیقت کو مد نظر رکھتے ہوئے اگلے مالی سال کے لئے 4493 اسامیاں پیدا کی جائیگی جس سے براہ راست روزگار کے مواقع میسر ہونگے ۔ ہماری موجوہ حکومت نے ترقیاتی بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ کردیا ہے اور ترقیاتی اسکیموں کے عمل درآمد میں اہل بے روزگار نوجوانوں کو شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ صوبائی حکومت کے مختلف اداروں میں موجود تربیتی اداروں مثلاََ ٹی۔ٹی۔سی۔ ، وی ۔ٹی ۔ سی ، اور سمال انڈسٹریز کے تحت کام کرنے والے اداروں میں نوجوانوں کو تربیت دی جائیگی تاکہ وہ اپنے لئے خود باعزت روزگار کمانے کے قابل بن جائیں۔ مزید یہ کہتعلیم یافتہ بے روزگار نواجوانوں کیلئے انٹرنشپ کا بندوبست کیا جا رہا ہے ۔ اسکے علاوہ وفاقی اداروں میں وفاقی بجٹ سے زیادہ سے زیادہ اسامیوں پر بلوچستان سے تعلق رکھنے والے بے روز گار نوجوانوں کو اہلیت کی بُنیاد پر روزگار فراہم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ سرکاری اہلکار صوبائی انتظامی مشینری کو چلانے ، پالیسی سازی اور ترقیاتی منصوبوں پر عملدرآمد میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ ہمیں اس بات کا پورا احساس ہے،کہ موجودہ مہنگائی اور افراطِ زر کے مقابلے میں سرکاری ملازمین کی تنخواہیں نہایت کم ہیں چنانچہ حکومت بلوچستان سرکاری ملازمین کیلئے مندرجہ زیل مراعات کا اعلان کرتی ہے۔ وفاقی حکومت کے اعلان کے تسلسل میں یکم جولائی2013 سے صوبائی ملازمین کی تنخواہوں میں گریڈ ایک سے سولہ تک کے ملازمین کے لیے15فیصد اور گریڈ 17 سے اُوپر کے ملازمین کے لیے 10فیصد اضافے کااعلان کیا جاتا ہے۔جس پرتقریباًچار ارب سولہ کروڑ روپے خرچ ہونگے .اس ضمن میں ، میں یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہماری حکومت صوبائی ملازمین کے مسائل کو حل کرنے میں دلچسپی رکھی ہے۔ اور انہیں ہرقسم کی مددفراہم کرے گی۔ تاہم حکومت اور بلوچستان کے عوام اپنے سرکاری ملازمین سے اس بات کی توقع رکھیں گے کہ وہ صوبہ کی ترقی اور غریب عوام کی بھلائی کیلئے اپنے فرائض منصبی کو بہتر طریقے سے ادا کرینگے۔ اورعوام کی خدمت میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں برتیں گے۔ ریٹائرڈ ملازمین کی پنش میں بھی 15فیصد اضافے کی تجویز ہے. اس مد میں تقریباًتیئس کروڑ ستر لاکھ روپے خرچ ہونگے.کنوینس الاؤنس جو اس سے پہلے صرف ضلعی اور ڈیژنل ہیڈ کوارٹرزمیں تعیناتی پر ملتا تھا کو اب تمام ملازمین کیلئے نہ صرف منظُوری دے دی گئی ہے بلکہ مزید اِس میں اضافہ بھی کردیا گیا ہے .انہوں نے کہا کہ محکمہ تعلیم کے سینئر اسٹاف کو ٹائم اسکیل کی منظُوری .انجینئرز کیلئے ڈیزائن اور نان پریکٹیسنگ الاؤنس میں اضافہ کر دیا گیا ہے.ٹریولِنگ (Travelling) اور ڈیلی (Daily)الاؤنس میں اضافہ کردیا گیا ہے.جیل خانہ جات کے ملازمین کیلئے راشن اور یونیفارم الاؤنس میں اضافہ کردیا گیا ہے.انجینئرنگ کے تمام محکموں کے اکاؤنٹس کلرکس کو اپ گریڈ کردیا گیا ہے.صوبے کے تمام اسیٹنوگرافرز اور پرائیوٹ سیکرٹریز کی اپ گریڈیشن کر دی گئی ہے.اٹھارویں ترمیم کے تحت وفاق سے صوبے میں آئے ہُوئے ملازمین کو ڈیپوٹیشن الاؤنس اور اسپیشل الاؤنس کی منظُوری دے دی گئی ہے۔

No comments:

Post a Comment