اسلام آباد (خبر رساں ادارے ) سپریم کورٹ نے 1931ء کا ٹیکس ایکٹ غیر آئینی قرار دے دیا، حکومت کو اعلامیے کے ذریعے جی ایس ٹی بڑھانے کا اختیار نہیں، عدالت نے حکومت کو 13 جون سے وصول کیا گیا ایک فیصد جی ایس ٹی اور 9 فیصد سی این جی پر ٹیکس رجسٹرار کے پاس جمع کرانے کا حکم دیا ہے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے جی ایس ٹی اور پٹرولیم قیمتوں میں اضافے سے متعلق از خود نوٹس کیس کا مختصر فیصلہ سنا دیا۔ عدالت نے فیصلے میں 1931ء کے ٹیکس کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کو محض ایک اعلامیے کے ذریعے جی ایس ٹی میں اضافہ کرنے اور اضافی
سیلز ٹیکس کی وصولی کا کوئی اختیار نہیں۔ فیصلے میں 13 جون سے وصول کیا گیا ایک فی صد جی ایس ٹی اور 9 فیصد سی این جی پر ٹیکس رجسٹرار کے پاس جمع کرانے کا حکم دیا ہے۔ عدالت نے قرار دیا ہے کہ 13 جون سے وصول کیا گیا اضافی ایک فیصد جی ایس ٹی صارفین کو قابل واپسی ہے تاہم رقوم کی واپسی پارلیمنٹ کی منظوری سے مشروط ہے۔ سیلز ٹیکس لگنے کے بعد پٹرول 86 پیسے، مٹی کا تیل 80 پیسے، ڈیزل 90 پیسے اور لائٹ ڈیزل 77 پیسے مہنگا ہو گیا تھا۔ فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کھانے پینے کی اشیاء پر جی ایس ٹی وصول نہ کیا جائے۔ عدالت نے فیصلے میں یہ بھی حکم دیا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں قیمتوں کو کنٹرول کریں۔ عدالت نے قرار دیا ہے کہ ٹیکس کا قانون صرف پارلیمنٹ لاگو کر سکتی ہے۔ مسلم لیگ نواز کے رہنماء اقبال ظفر جھگڑا کے وکیل اکرام چوہدری نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا فیصلہ قانون کی حکمرانی کی راہ ہموار کرے گا۔ عدالت نے مختصر فیصلہ سنانے کے بعد کہا ہے تفصیلی وجوہات اور فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔
No comments:
Post a Comment