Thursday, June 20, 2013

بجٹ میں عوام کو ریلیف نہیں ملا‘ غریب پر بوجھ ڈالا گیا‘ اپوزیشن سینیٹر ‘حکومتی ترجیحات کا آئینہ ہے ‘ حکومتی سینیٹر


اسلام آباد(خبر رساں ادارے) سینٹ میں حکومتی اور اپوزیشن سینیٹرز نے بجٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ بجٹ میں عوام کو ریلیف نہیں دیا‘ غریب پر بوجھ ڈالا گیا‘ ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کیا جائے‘ حکومت ان ڈائریٹ ٹیکسوں سے گریز کرے جبکہ حکومتی سینیٹرز نے کہا کہ بجٹ حکومتی ترجیحات کا آئینہ دار ہے‘ موجودہ حالات میں اس سے بہتر بجٹ پیش نہیں کیا جاسکتا۔ جمعرات کو سینٹ کے اجلاس میں بجٹ بحث میں حصہ لیتے ہوئے سینیٹر فرح عاقل نے کہاکہ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں پیش آنے والے دہشت گردی کے واقعات قابل مذمت ہیں۔ 
بجٹ کیا کیا جائے جب انسانی جان و مال ہی محفوظ نہ ہو۔ گیس اوربجلی کے موجودہ بحران میں حکومت کیلئے عوامی بجٹ پیش کرنا ممکن نہیں تھا لیکن عوام کو فوری ریلیف کی توقع تھی۔ گذشتہ حکومت بھی عوام کو ریلیف نہ دے سکی اور پانچ سال گزر گئے۔ نوجوانوں کیلئے مراعات اور تعلیم پر توجہ خوش آئند ہے۔ سینیٹر محسن لغاری نے کہا کہ وزیر خزانہ سیاسی شخصیت ہیں اس سے پہلے وزراء خزانہ امپورٹ کئے گئے۔ بجٹ حکومتی ترجیحات کا آئینہ دار ہے۔ حکومت نے پی ایس ڈی میں پچاس فیصد اضافہ کیا ہے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کو جاری رکھا گیا ہے جس کیلئے محاصل بڑھانا ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں نے نئے صوبوں کے قیام کو اپنے منشور کا حصہ بنایا ہے لیکن اس سلسلے میں فنڈز مختص نہیں کئے گئے۔ انہوں نے کہا کہ بلدیاتی انتخابات کا ہونا بہت ضروری ہے اس کیلئے قانون بھی بنانا ہوگا کہ یہ مقررہ وقت میں ہوں۔ پیپلزپارٹی کی سینیٹر سعیدہ اقبال نے کہا کہ اسلام آباد کی آبادی میں اضافہ ہورہا ہے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کو جاری رکھنا خوش آئند ہے۔ ہسپتال چھٹی والے دن بھی کھلے رہنے چاہئیں تاکہ مریضوں کا زیادہ بوجھ پمز ہسپتال پر نہ پڑے۔ سینیٹر سلیم مانڈوی ولا نے کہا کہ بلاشبہ حکومت کو محاصل بڑھانے کی ضرورت ہے لیکن اس کیلئے غریب عوام پر بوجھ نہ ڈالا جائے۔ معاشی معاملات پر سیاست نہیں کرنی چاہئے۔ ہمیں جن ایشوز پر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا تھا موجودہ بجٹ میں بھی وہی چیزیں شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایف بی آر کو ٹیکس گزاروں کے اکاؤنٹس تک رسائی دینا غیر منصفانہ اور غیر قانونی ہے۔ ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کیا جائے۔ حکومت ان ڈائریکٹ ٹیکس سے گریز کرے۔ ہم حکومت پر تنقید نہیں کرنا چاہتے بلکہ صرف تجاویز دے رہے ہیں۔ جے یو آئی (ف) کے سینیٹر حاجی غلام علی نے کہا کہ حکومت سے درخواست ہے کہ عوام میں اس بجٹ سے پیدا ہونے والی بے چینی کا سدباب کیا جائے۔ گذشتہ حکومت نے کاروباری برادری کو یقین دلایا تھا کہ ٹیکس رجسٹریشن بڑھنے سے سیلز ٹیکس کم ہوگا مگر افسوس کیساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ایسا نہیں ہورہا بلکہ سیلز ٹیکس کو بڑھایا جارہا ہے۔ گذشتہ حکومت کی طرف سے فاٹا کو دی جانے والی مراعات واپس لے لی ہیں۔ فاٹا کو ٹیکس میں چھوٹ دی جائے تو مزید کارخانے لگیں گے جس سے معیشت میں بہتری آئے گی۔ حکومت صنعتی ترقی کیلئے اقدامات اٹھائے۔ سینیٹر نسیمہ احسان نے کہا کہ بجٹ میں تنخواہوں میں اضافہ نہیں کیا گیا لیکن25 ارب روپے پے اینڈ پنشن کی ریفارمز کی مد میں رکھے گئے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت کو معلوم تھا کہ ملازمین کے احتجاج پر تنخواہیں بڑھانا ہوں گی۔ جی ایس ٹی کا بوجھ عام ملازمین پر پڑے گا۔ سروسز پر ٹیکس کا اختیار صوبوں کو ہے لیکن وفاقی حکومت نے یہ ٹیکس لگادیا۔ سیمنٹ کی بوری پچاس روپے مہنگی ہوجائے گی اور تعمیرات کے شعبے سے وابستہ محنت کش متاثر ہوں گے۔ یہ صنعتکار اور امیر دوست بجٹ ہے۔ سینیٹر مختار دھامرا نے کہا کہ حکومت نے سرکاری ملازمین کے احتجاج پر تنخواہوں میں اضافہ کردیا ہے۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ اسمبلیاں اپنی مدت پوری کریں۔ اصغر خان کیس میں سپریم کورٹ نے جو فیصلہ دیا ہے ایف آئی اے کو ہم نے تحقیقات کیلئے نہیں کہا کیونکہ ایف آئی اے کو بدنام کیا گیا اب تاریخ فیصلہ کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ پاک ایران گیس پائپ لائن کا بجٹ میں کہیں ذکر نہیں ہے۔ حکومت کو اس منصوبے پر کام کرنا پڑے گا۔ سابق حکومت نے جراتمندانہ فیصلے کئے اسے تسلیم کرنا ہوگا۔ حکومت نوجوانوں کو نوکریوں سے برطرف نہ کرے ان پر رحم کرے ورنہ پوری قوم سڑکوں پر آجائے گی۔ سینیٹر ظفراللہ خان نے کہا کہ موجودہ حکومت کو ورثے میں کرپشن‘ سکینڈل‘ مالی بحران اور دہشت گردی جیسے مسائل ملے ہیں۔ ملتان‘ بہاولپور‘ ڈی جی خان ڈویژن کے طلباء کی طرح بھکر کے طلباء کو بھی پسماندہ علاقوں کے طلباء قرار دیا جائے۔ ہم نے مل کر ملک کو سنوارنا ہے۔ بھکر میں دریائے سندھ کے کٹاؤ سے کئی علاقوں کی لاکھوں ایکڑ اراضی متاثر ہورہی ہے۔ کٹاؤ کی زد میں کئی آبادیاں بھی آگئی ہیں۔ حکومت ان آبادیوں اور زمینوں کو بچانے کیلئے اقدامات کرے۔

No comments:

Post a Comment