لے جہاں سے کھڑے ہو کر وہ پیچھے اور آگے دیکھ سکے- تو کیا -- ٢٣ اکتوبر کی تاریخ، لاہور ، مینار پاکستان اور ملکجی شام نے ہمیں چنا یا ہم نے انہیں ؟
اگر ہم پلٹ کر سترہ سال کی کثیف دھند میں دیکھیں تو بطور قوم اپنی تمام تر یاداشت کی کمزوری کے کچھ واقعات ہیں جو کھنڈر ہوتی عمارتوں کی طرح بوسیدہ اور دھندلکے ضرور ہو گۓ ہیں مگر اب بھی کچھ نہ کچھ یاد دلانے میں کامیاب ضرور ہو جاتے ہیں-
سترہ سال پہلے جب - عمران خان نے سیاست شروع کی تو ایک ایسی بہت بڑی تعداد دل و جان سے اس کے ساتھ تھی جنھیں بذات خودکئی مسائل کا سامنا تھا - یا تو وہ عمرکے اس حصے میں تھے جب انکا ووٹ ہی نہیں تھا ' یا وہ مالی طور پر اپنے والدین پہ ڈپنڈنٹ تھے اس لیے قوت فیصلہ ان کے ہاتھ میں نہیں تھی، یا نظام کے خلاف آواز اٹھانے کے لیے ان کے پاس کمونیکیشن میڈیا نہیں تھا جیسا کہ اب سوشل میڈیا کا پلیٹ فارم ان
کے ہاتھ لگ گیا ہے یا پھر سیاست کی بےرنگی اتنی تھی کہ وہ صرف عمر رسیدہ لوگوں کے لیے ہی رہ گئی تھی -
کے ہاتھ لگ گیا ہے یا پھر سیاست کی بےرنگی اتنی تھی کہ وہ صرف عمر رسیدہ لوگوں کے لیے ہی رہ گئی تھی -
عمران خان نے ایک بار کہاں تھا کہ میرا وقت ابھی نہیں آیا ، میرے ووٹر کو ابھی ٹائم چاہے ، مگر وہ ایک دن آےگا - اس وقت یہ ایک جاگتی آنکھوں کا خواب لگتا تھا مگر بقول خان کے ؛ ہر بڑاکام ایک خواب سے شروع ہوتا ہے ' اسکے ووٹر کو ایک دہائی چاہے تھی جب وہ سارے مسائل سے آزاد ہو جائے گا ' اسکی عمر ووٹ ڈالنے کی ہو جائے گی، مالی طور پہ خود کفیل ہو جائے گا اور دنیا ایک تغیر کا نام ہے اسکی جنریشن میڈیا کے پلیٹ فارم کو اپنے ہاتھ میں لے لے گی.
سترہ سال - عمر کا ایک طویل حصہ - اس قوم کی اکثریت جہاں شارٹ کٹ کی تلاش میں رہتی ہے ، عمران خان تپسیا کرتا رہا - اسے معلوم تھا کہ ایک پائیدار کامیابی کے لیے جتنی محنت اور وقت درکار ہوتا ہے وہ اسے دینا پڑے گا - اس سارے عرصے میں وہ ایک ایمندارقیادت کے طور پر ابھرا جو آخری گیند تک ناممکنات کا کھیل کھیلتا نظر آتا ہے -وئی سوچ سکتا ہے کہ اپنی الیکشن مہم کے لیے کوئی سیاسی پارٹی ایک ایسی قوم سے چندہ مانگنے کا سوچ سکتی ہے جو قوم سیاست کو ایک گالی سمجھتی ہو ؟ جہاں اکثریت بلعموم اور نوجوان بلخصوص ووٹ سے حاصل ہونے والی تبدیلی پہ یقین ہی نہ رکھتے ہوں - جہاں لوگ سمجھتے ہوں کہ ووٹ کیوں دیں کہ نیا آنے والا لوٹ کھسوٹ میں پچھلے کو بھی پیچھے چھوڑ جاتا ہے ؟ مگر اس نے یہ کر دکھایا -
ہمارے کئی دانشور کسی نہ کسی پارٹی کے درباری ہیں اور کئی تو ایسے جو جامد ہیں ، دربار بدل جاتے ہیں مگر وہ کئی ایک سیاسی پارٹیوں کی طرح حکومت کا یا اپوزیشن کا حصہ رہتے ہیں ، کئی ایسے ہیں جو اس کوسش میں مصروف نظر اتے ہیں کہ وہ جانبدار نظر نہ آنا شروع ہو جایئں - کہ وہ نہ اس طرف اور نہ اس طرف - اس چکر میں وہ ہمیشہ تنقید کرتے نظر اتے ہیں اور ستم ظریفی یہ کہ جانچ کے پیمانے بھی مختلف ہیں - بقول ڈاکٹر معید پیرزادہ کے " میرے ساتھی اینکر پرسنز اور کالم نویسوں نے نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کو ناپنے کا ایک پیمانہ رکھا ہوا ہے اور تحریک انصاف کو دوسرا پیمانہ "
مگر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی مکمل طور پر غیر جانبدار رہے - کہیں تو کوئی ایسا نقطہ آتا ہے کہ جہاں پر آپ کو "بہرحال ....اس کے باوجود ......ایک بات تو ہے ..... یہ تو ماننا پڑے گا .... "کے بعد بات کرنا پڑتی ہے -
آپ کے پاس الفاظوں کے کتنے ہی رنگ برنگے چھلکے ہوں اور آپ کو تحریر و تقرر پہ کتنا ہی ملکہ ہو یا آپ کو الفاظوں کے معنی بدلنے پہ کتنا ہی ید طولا ہو کیا لوگوں کی اکثرت واقعی اتنی عقل سے پیدل نظر آتی ہے کہ آپ سب کو سارا وقت بیوقوف بناتے رھیں اور وہ بنتے رہیں ؟
عمران نے ایسا بہت کچھ کہا اور کیا -- جس پر چاروں طرف سے طنز ، مذاق اور تضحیک کے نشتر برساتے گئے مگر اسے جو لگا کہ صحیح ہے اس نے وہ کی
کتنے لوگوں نے کہا کہ الیکشن کے سال میں پارٹی الکشن نہ کراؤ، پارٹی ٹوٹ جائے گی --- کتنے لوگوں نے کہا کہ مینار پاکستان پر جلسہ مت کرو جگہ بھرنی مشکل ہو جائے گی -- کتنوں نے کہا کہ اس کے ووٹر برگر بچے ہیں مگر اب کون ہے جو اسکی تحریک سے متاثر نہیں اور اسکا حصہ نہیں -- کتنوں نے کہاں کہ وہ رائٹ ونگ کا ووٹ توڑ کر پیپلز پارٹی کو دوبارہ اقتدار میں لانے کی رہ ہموار کر رہا ہے مگر اب سروے بتا رہے ہیں کہ سب سے زیادہ نقصان اس نے پیپلز پارٹی کو پہنچایا - کتنوں نے کہا کہ اصولوں میں لچک نہ ڈھکی تو اصغر خان بن جاؤ گۓ مگر نہ اس نے لچک دکھائی اور نہ وہ قصہ پارینہ بنا -- اور پیچھے چلے جایئں تو ہسپتال ، نمل یونیورسٹی ، ورلڈ کپ سب ناممکنات ہی نظر اتے تھے
اب بھی تنقید جاری ہے کہ ناممکن باتیں کر رہا ہے مثلآ ڈرون مار گرائیں گۓ ، قرضے اور بھیک نہیں مانگے گۓ ، زرداری سے حلف نہیں لیں گۓ وغیرہ وغیرہ
مگر کیا عمران نے جو کہا وہ کر نہیں دکھایا ؟ کیا اسکی فیملی ممبرز کی طرح ہمارے دانشور اسے ابھی بھی نہیں جان سکے ؟
جب عمران خان نے اپنے کزن کو ٹکٹ نہیں دیا اور فیملی میں خانہ جنگی شروع ہو گئی تو میرے ایک دوست نے کہا کہ عمران خان اور تحریک انصاف کے لیے کچھ کرو اور ذاتی مفاد کی امید رکھو ایک حماقت ہے ، میں عمران خان کو کبھی ملا نہیں ، یہ اس کی فیملی ممبرز ہیں اسے بچپن سے جانتے ہیں کیا پھر بھی اس سے یہ امید رکھتے ہیں ؟ اس نے اپنے والد کو ہسپتال کے بورڈ سے الگ کر دیا تو کیا انہوں نے یہ نہیں دیکھا تھا ؟
١١مئی ایک اور کہانی کا نقطۂ آغاز ہے - - - جہاں پہ کھڑے ہو کر پیچھے دیکھیں تو پرانا پاکستان اور نئے پاکستان کی جہد مسلسل نظر آتی ہے اور آگے دیکھیں تو فی الحال بے یقینی کی دھند پردہ تانے ہوے ہے --- کیا ہو گا ١١ مئی کو ؟ یہ سوال دھڑکنیں تیز کر دیتا ہے کیا یہاں سے واپس لوٹ جانا ہے اور وہی بیکیف شب و روز زندگی کا حصہ ہوں گۓ ، وہی چہرے ، وہی پالیسیاں ، وہی scams ، وہی دکھاوے کے پروجیکٹ جن کا کل مقصد اپنی تشہیر اور اور کرپشن ہوگا یا پھر آگے ----- عمران کا نیا پاکستان ہے جو ایک خواب ہے، ہم نغمہ سر کچھ غزلوں کے ، ہم صورت گر کچھ خوابوں کے !!!! عمران اپنی بہترین انگز کھل کر پولین لوٹ گیا ہے اور آپ سب میدان میں ہیں ، آخری گیند تک لڑنے والے کپتان کے کھلاڑی جو آخری اوورز کھیل رہے ہیں - میچ ادھر جائے گا یا ادھر، یہ سب آپ پر منحصر ہے -
No comments:
Post a Comment