Friday, June 14, 2013

نئی حکومت کا پہلا بجٹ
قومی اسمبلی میں مالی سال 2013-14ء کا 35کھرب91ارب روپے کا خسارے کا بجٹ پیش کردیا گیا جس میں خالص آمدن کا تخمینہ 19ارب 18کھرب روپے لگایا گیا ہے۔ اس طرح یہ بجٹ 16کھرب74ارب روپے خسارے کا بجٹ ہے۔ یہ خسارہ گزشتہ سال کے مقابلے میں2اعشاریہ 50 فیصد کم ہے جبکہ بجٹ کا مجموعی حجم گزشتہ سال کے مقابلے میں21فیصد زائد ہے۔ اس میں صوبوں کا حصہ 15کھرب2ارب روپے رکھاگیا ہے۔ بجٹ میں سرکاری ملازمین کی پنشن میں10فیصد اضافہ کیا گیا ہے تاہم ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔ سیلز ٹیکس 16 فیصد سے بڑھا کر17فیصد کردیا گیا جس سے بجلی، چینی، تیل، گھی، دودھ، سگریٹ ،پان، چھالیہ، فریج اور ائیرکنڈیشنرز کی قیمتوں میں اضافہ متوقع ہے۔ کتابیں ،کاپیاں، قلم، سلائی مشینیں، ٹریکٹرز سمیت85فیصد منصوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا۔ قومی اسمبلی میں وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بجٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ بجٹ میں تقریباً 70ے80ارب روپے کے ٹیکس لگائے گئے
ہیں اور ٹیکسوں پر ہر قسم کی چھوٹ ختم کردی گئی ہے۔
معروضی صورتحال اور زمینی حقائق کو پیش نظر رکھا جائے تو بحرانوں کا ا یک طوفان ورثے میں ملنے کے باوجود مسلم لیگ(ن) کی حکومت کے پہلے بجٹ میں عوام کی مشکلات کا ازالہ کرکے سرکاری شعبوں سے کرپشن کا خاتمہ قومی وسائل کے ضیاع کو روکنے اور ٹیکس چوری کو روکنے کے علاوہ ہر سطح پر عوامی مسائل کے حل کو اولین ترجیح قرار دیا گیا ہے۔نوجوانوں کے لئے خصوصی پیکیج کے تحت لیپ ٹاپ سکیم کا اجراء کیا گیا ہے جس میں نوجوانوں کے لئے5لاکھ روپے کا قرض اور 10ہزار روپے ماہانہ وظیفہ مختص کیا گیا ہے اور50ہزار نوجوانوں کو گھروں کی تعمیر کے لئے 15 سے50لاکھ روپے کا قرض دیا جائیگا۔ نیلم جہلم پراجیکٹ کے لئے25ارب روپے اور تربیلا ڈیم کی توسیع پر 137ارب روپے خرچ ہوں گے۔ 1200سی سی کی ہائی برڈگاڑیوں پر ٹیکس اور ڈیوٹی ختم کردی گئی ہے اور 1800سی سی تک کی کاروں پر 50 جبکہ2500سی سی پر 25فیصد رعایت دینے کی تجویز زیر غور ہے۔ قومی وسائل کے ضیاع کی کو روکنے کی پالیسی کے تحت16 وفاقی وزارتوں امریکہ اور برطانیہ میں سفارتخانوں کے خفیہ فنڈز ختم کردئیے گئے ہیں جس سے6ارب روپے کی بچت متوقع ہے۔ آشیانہ سکیم کے تحت ملک بھر میں500گھروں والی100کالونیاں بنائی جائیں گی اس پر 3 ارب 50 کروڑ روپے خرچ ہوں گے۔ حکومت نے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام جاری رکھتے ہوئے اس کی تنظیم نو کرنے کا اعلان کیا ہے اور وزیر خزانہ کے مطابق اس کا حجم بڑھا کر75ارب روپے کیا جائیگا۔ حکومت نے ملک بھر میں موٹر ویز کا جال بچھانے ،حیدرآباد شاہراہ پر کام تیز کرنے کی ہدایت کی ہے۔ سالانہ4 لاکھ روپے آمدن والا شخص ہر قسم کے ٹیکس سے مستثنیٰ ہوگا۔ گوادر میں خصوصی اقتصادی زون کا قیام اور10سال کے لئے ٹیکس کی چھوٹ بلوچ عوام کی شکایات کا ازالہ کرنے اور علاقائی ترقی میں مددگار ثابت ہوگی۔
جہاں تک حالیہ وفاقی بجٹ کا تعلق ہے تو اپوزیشن اوربعض صنعتی اور کاروباری حلقوں کی طرف سے اس پر تنقید کا پہلو بھی سامنے آیا ہے ان کا موقف ہے اس بجٹ سے عوام کو ریلیف ملنے کی بجائے ان کی مشکلات میں اضافہ ہوگا۔ قوت خرید متاثر ہوگی اور گرانی کا گراف بھی بڑھے گالیکن اگر ملک کی صورتحال پر نظر ڈالی جائے اور موجودہ حکمرانوں کو ورثے میں ملنے والے سنگین مسائل کا تجزیہ کیا جائے تو یہ ماننا پڑے گا کہ بدترین اقتصادی صورتحال اور ہر شعبہ زندگی میں مسائل کے انبار کے باوجود حکومت نے ان مشکلات سے نکلنے کی جدوجہد تو ضرور کی ہے۔ نوجوانوں کو قرضوں کے اجراء کا مسئلہ ہو یا مکانات کی تعمیر کے لئے بھاری قرضوں کی فراہمی ٹیکس نیٹ ورک وسیع کرنے کا مسئلہ ہو یا ٹیکس چوروں کو پکڑے والوں کو انعامات سے نوازنے کا مسئلہ، بڑی بڑی گاڑیوں پر ٹیکس کا خاتمہ ،سولر اور پن بجلی کے منصوبوں کے لئے بھاری رقوم مختص کرنے کا اقدام ہو یا خفیہ فنڈز کا خاتمہ غرض حکومت نے دستیاب وسائل کے حوالے سے عوام کوممکن حد تک سہولتیں فراہم کرنے کی کوشش ہے اور یہ کہنا ہرگز مبالغہ نہیں کہ معروضی حالات میں کسی بھی حکومت کے لئے اس سے بہتر بجٹ پیش کرنا ممکن نہ تھا۔

No comments:

Post a Comment