ریلیف یا مزید تکلیف؟... حسن نثار
ن لیگ نے 148معاشی دھماکہ147 کرنے کا وعدہ کیا تھا سو اس طرح پورا کیا ہے کہ اس کی گونج پورے ملک میں سنائی دے رہی ہے۔ دھماکہ کے 148تابکاری اثرات147 بھی مسلسل جاری رہیں گے جس سے عوام کو لطف اندوز ہونے کا بھرپور موقعہ ملے گا۔ آپ کو یاد ہوگا میں نے 148حلف برداری147 کے اردگرد اسی کالم میں درخواست کی تھی کہ سب لوگ بنیادی ترین ضروریات زندگی مثلاً آٹا، دال، چاول، چینی، دودھ کی پتی وغیرہ کی قیمتیں نوٹ فرمالیں تاکہ چھ مہینے بعد کی قیمتوں سے ان کا موازنہ کر کے ماتم کرنے میں آسانی رہے، یہ علیحدہ بات کہ یہ والا ماتم 148جمہوری147 ہوگا جو آپ کو زخم زخم پر یاد دلائے گا کہ 133 148 جمہوریت بہترین انتقام ہے147 سو یہ فیصلہ میں نے نہیں آپ نے خود کرنا ہے کہ یہ تازہ ترین بجٹ شیر پر سوار ہو کر آیا ہے یا شیر بجٹ پر سوار ہو کر نمودار ہوا ہے۔
ایک بات جو میرے پلے نہیں پڑ رہی کہ بجٹ، بجٹ ہوتا ہے کوئی 148پریم پتر147 نہیں جو اتنی جلدی پیش کیا جاسکے۔ کابینہ کی تشکیل کو تو جمعہ جمعہ 8 دن بھی نہیں ہوئے تویہ بجٹ کہاں سے آگیا اور اگر وزیر خزانہ پہلے سے ہی اس کی تیاری میں جتے تھے تو انہیں اس بات کا یقین کس نے دلایا تھا کہ حکومت آپ ہی کی ہوگی۔ تیسرا امکان یہ ہے کہ بجٹ عوام دشمن بیور و کریسی نے بنایا ہو اور وزیر خزانہ نے تھوڑی بہت سیاسی ڈینٹنگ پینٹنگ کر کے اسے سوٹ پہن کر پڑھ دیا ہو۔
پوری انتخابی مہم کے دوران بلکہ اس سے بھی بہت پہلے سے ن لیگ کی لیڈر شپ کا تکیہ کلام یہ تھا کہ 133 148لوٹی ہوئی دولت واپس لائیں گے۔147 میں مسلسل لکھ رہا ہوں کہ بسمہ اللہ کیجئے، لوٹی ہوئی دولت کی واپسی کیلئے ہل جل تو شروع کریں، یہ اچھی خبر بھی متعدد بار سنا چکا ہوں کہ سوئٹزر لینڈ، برطانیہ، یورپی یونین اور یونائیٹڈنیشن وغیرہ اس سلسلہ میں انتہائی مثبت پیش رفت کر چکے اور اب لوٹی ہوئی دولت کی واپسی کچھ زیادہ مشکل کام نہیں لیکن مجال ہے کہ مجہول اور فضول قسم کے نعروں کے عادی کانوں پر جوں بھی رینگی ہو۔
حیرت ہے کہ حاجی تک نہیں چھوڑے گئے، پان چھالیہ تک کو نہیں بخشا گیا، شیر خوار بچوں کے دودھ پر بھی ہاتھ صاف کردیا گیا، شادی ہال، کلب، ریستوران تک گھسیٹ لیے گئے، زیرو ریٹنگ مصنوعات پر بھی چھوٹ واپس لے لی گئی، کاپی، قلم، کتاب پر بھی عذاب نازل، سلائی مشینوں سے ٹریکٹروں تک کو بھی ٹارگٹ کیا گیا، جی ایس ٹی میں بھی کمر توڑ ملٹی پل اضافہ، بجلی، چینی، تیل کی شامت علیحدہ 133 کہاں کہاں کاری ترین ضربیں نہیں لگیں لیکن 133 لوٹی ہوئی دولت کی واپسی کی طرف کوئی اشارہ تک بھی نہیں 133 ہاں البتہ نوجوان ووٹرز کیلئے لیپ ٹاپ، قرضے اور وظیفے کیونکہ اس سے 148سیاسی مائیلیج147 ملنے کا امکان ہے کہ ہمارے ہاں تو اقتصادی فیصلوں کے پیچھے بھی سیاسی ذہنیت کا ابلیسی کارخانہ چل رہا ہوتا ہے۔
اول تو چند ہفتوں کیا دنوں کے اندر اندر ہی یہ بجٹ دندل ڈال دے گا حالانکہ یہ بجٹ تو آنے والے منی بجٹوں کا دیباچہ ہے۔ بیچارے عوام غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کے تو عادی ہیں ہی، اس بار انہیں 148غیر اعلانیہ بجٹ147 بلکہ بجٹوں کا بھی ایسا بھرپور تجربہ ہوگا کہ کچھ عش عش کر اٹھیں گے اور بہت سے 148غش غش147 کا شکار ہو کر اس طرح پھڑ پھڑائیں گے جیسے ذبح کی ہوئی مرغی، مرغی فروش قصائی کے ڈرم میں پھڑ پھڑاتی ہے۔
سمال انڈسٹری پر بھی بجلی بلوں کے ذریعہ 5 فیصد ٹیکس لگانا ایسا چونا لگائے گا کہ سارے ارمان فریزر میں جا لگیں گے، ہر شے کی قیمت میں اضافہ ہوگا جبکہ صارف مزید سستے ہوتے چلے جائیں گے، افراط زر ضربیں کھائے گا، عوام مزید 148تقسیم147 ہوتے چلے جائیں گے۔ چند 148ڈھکوسلے147 اور 148ڈرامے147 بھی پیش کیے گئے ہیں مثلاً زرعی قرضہ انکم ٹیکس ادائیگی سے مشروط ہوگا، ہائبرڈ گاڑیاں، شمسی توانائی پمپس وغیرہ سستے ہوں گے، وزراء کی صوابدیدی گرانٹ ختم، وزیراعظم آفس کے بجٹ میں 45 فیصد کمی اور نئی گاڑیاں نہیں خریدی جائیں گی وغیرہ غیرہ تو یہ سب کچھ گونگلوؤں پر سے مٹی جھاڑنے کے مترادف ہوگا۔
اصل بات یہ کہ زندگی سے عاجز عوام کو ریلیف ملے گا یا مزید تکلیف ان کا مقدر ہوگی تو ہاتھ کنگن کو آر سی کیا۔ کسی بھی قسم کے ریلیف کا دور دور تک کوئی امکان نہیں اور ان سب کو کانٹوں کی وہ فصل کاٹنے کیلئے تیار رہنا چاہئے جنہوں نے یہ فصل بڑی محبت و محنت سے کاشت کی ہے۔
اصول کی بات ہے کہ سرمایہ داروں، صنعت کاروں اور جاگیر داروں کا کوئی بجٹ 148عوام فرینڈلی147 ہوسکتا ہی نہیں اور اس ملک کی اشرافیہ کا تو حال یہ ہے کہ ان میں سے ہر کوئی بیک وقت سرمایہ دار بھی ہے، صنعت کار بھی ہے اور جاگیردار بھی۔ جو صنعت کار تھے۔ احساس کمتری کا شکار تھے سو انہوں نے بڑے بڑے زرعی رقبے خرید لیے اور جھوٹے سچے جاگیردار بھی بن گئے اور جو جاگیردار تھے، انہوں نے بہتی گنگا میں ننگا اشنان کیا اور شوگر، سیمنٹ، ٹیکسٹائل کی صنعتیں لگا لیں۔
ان طبقات سے ریلیف کی توقع؟ یہ تو چیل کے گھونسلے میں ماس ڈھونڈنے والی بات ہے یا جیسے کوئی ریت 148نچوڑ147 کر آپ حیات نکالنا چاہے 133 ہاں البتہ اتنا ضرور ہے کہ یہ عوام کو مرنے نہیں دینگے کیونکہ عوام ہی نہ رہے تو ووٹ کس سے لیں گے؟ حکومت کن پر کرینگے؟ رستے روک کر ذلیل کسے کرینگے؟ ہوٹر کن کو سنائیں گے؟
جاگنے والو! جاگو مگر خاموش رہو اور ہوش سے کبھی کام نہ لو ۔
پوری انتخابی مہم کے دوران بلکہ اس سے بھی بہت پہلے سے ن لیگ کی لیڈر شپ کا تکیہ کلام یہ تھا کہ 133 148لوٹی ہوئی دولت واپس لائیں گے۔147 میں مسلسل لکھ رہا ہوں کہ بسمہ اللہ کیجئے، لوٹی ہوئی دولت کی واپسی کیلئے ہل جل تو شروع کریں، یہ اچھی خبر بھی متعدد بار سنا چکا ہوں کہ سوئٹزر لینڈ، برطانیہ، یورپی یونین اور یونائیٹڈنیشن وغیرہ اس سلسلہ میں انتہائی مثبت پیش رفت کر چکے اور اب لوٹی ہوئی دولت کی واپسی کچھ زیادہ مشکل کام نہیں لیکن مجال ہے کہ مجہول اور فضول قسم کے نعروں کے عادی کانوں پر جوں بھی رینگی ہو۔
حیرت ہے کہ حاجی تک نہیں چھوڑے گئے، پان چھالیہ تک کو نہیں بخشا گیا، شیر خوار بچوں کے دودھ پر بھی ہاتھ صاف کردیا گیا، شادی ہال، کلب، ریستوران تک گھسیٹ لیے گئے، زیرو ریٹنگ مصنوعات پر بھی چھوٹ واپس لے لی گئی، کاپی، قلم، کتاب پر بھی عذاب نازل، سلائی مشینوں سے ٹریکٹروں تک کو بھی ٹارگٹ کیا گیا، جی ایس ٹی میں بھی کمر توڑ ملٹی پل اضافہ، بجلی، چینی، تیل کی شامت علیحدہ 133 کہاں کہاں کاری ترین ضربیں نہیں لگیں لیکن 133 لوٹی ہوئی دولت کی واپسی کی طرف کوئی اشارہ تک بھی نہیں 133 ہاں البتہ نوجوان ووٹرز کیلئے لیپ ٹاپ، قرضے اور وظیفے کیونکہ اس سے 148سیاسی مائیلیج147 ملنے کا امکان ہے کہ ہمارے ہاں تو اقتصادی فیصلوں کے پیچھے بھی سیاسی ذہنیت کا ابلیسی کارخانہ چل رہا ہوتا ہے۔
اول تو چند ہفتوں کیا دنوں کے اندر اندر ہی یہ بجٹ دندل ڈال دے گا حالانکہ یہ بجٹ تو آنے والے منی بجٹوں کا دیباچہ ہے۔ بیچارے عوام غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کے تو عادی ہیں ہی، اس بار انہیں 148غیر اعلانیہ بجٹ147 بلکہ بجٹوں کا بھی ایسا بھرپور تجربہ ہوگا کہ کچھ عش عش کر اٹھیں گے اور بہت سے 148غش غش147 کا شکار ہو کر اس طرح پھڑ پھڑائیں گے جیسے ذبح کی ہوئی مرغی، مرغی فروش قصائی کے ڈرم میں پھڑ پھڑاتی ہے۔
سمال انڈسٹری پر بھی بجلی بلوں کے ذریعہ 5 فیصد ٹیکس لگانا ایسا چونا لگائے گا کہ سارے ارمان فریزر میں جا لگیں گے، ہر شے کی قیمت میں اضافہ ہوگا جبکہ صارف مزید سستے ہوتے چلے جائیں گے، افراط زر ضربیں کھائے گا، عوام مزید 148تقسیم147 ہوتے چلے جائیں گے۔ چند 148ڈھکوسلے147 اور 148ڈرامے147 بھی پیش کیے گئے ہیں مثلاً زرعی قرضہ انکم ٹیکس ادائیگی سے مشروط ہوگا، ہائبرڈ گاڑیاں، شمسی توانائی پمپس وغیرہ سستے ہوں گے، وزراء کی صوابدیدی گرانٹ ختم، وزیراعظم آفس کے بجٹ میں 45 فیصد کمی اور نئی گاڑیاں نہیں خریدی جائیں گی وغیرہ غیرہ تو یہ سب کچھ گونگلوؤں پر سے مٹی جھاڑنے کے مترادف ہوگا۔
اصل بات یہ کہ زندگی سے عاجز عوام کو ریلیف ملے گا یا مزید تکلیف ان کا مقدر ہوگی تو ہاتھ کنگن کو آر سی کیا۔ کسی بھی قسم کے ریلیف کا دور دور تک کوئی امکان نہیں اور ان سب کو کانٹوں کی وہ فصل کاٹنے کیلئے تیار رہنا چاہئے جنہوں نے یہ فصل بڑی محبت و محنت سے کاشت کی ہے۔
اصول کی بات ہے کہ سرمایہ داروں، صنعت کاروں اور جاگیر داروں کا کوئی بجٹ 148عوام فرینڈلی147 ہوسکتا ہی نہیں اور اس ملک کی اشرافیہ کا تو حال یہ ہے کہ ان میں سے ہر کوئی بیک وقت سرمایہ دار بھی ہے، صنعت کار بھی ہے اور جاگیردار بھی۔ جو صنعت کار تھے۔ احساس کمتری کا شکار تھے سو انہوں نے بڑے بڑے زرعی رقبے خرید لیے اور جھوٹے سچے جاگیردار بھی بن گئے اور جو جاگیردار تھے، انہوں نے بہتی گنگا میں ننگا اشنان کیا اور شوگر، سیمنٹ، ٹیکسٹائل کی صنعتیں لگا لیں۔
ان طبقات سے ریلیف کی توقع؟ یہ تو چیل کے گھونسلے میں ماس ڈھونڈنے والی بات ہے یا جیسے کوئی ریت 148نچوڑ147 کر آپ حیات نکالنا چاہے 133 ہاں البتہ اتنا ضرور ہے کہ یہ عوام کو مرنے نہیں دینگے کیونکہ عوام ہی نہ رہے تو ووٹ کس سے لیں گے؟ حکومت کن پر کرینگے؟ رستے روک کر ذلیل کسے کرینگے؟ ہوٹر کن کو سنائیں گے؟
جاگنے والو! جاگو مگر خاموش رہو اور ہوش سے کبھی کام نہ لو ۔
No comments:
Post a Comment