Friday, June 14, 2013

کڑوے گھونٹ پینا ہوں گے!...       عرفان صدیقی

بجٹ ہمیشہ ہی اعداد و شمار کا ایسا گورکھ دھندا رہا ہے جو اچھے اچھوں کی سمجھ میں نہیں آتا۔ الجھی ہوئی اس ڈور کا سرا ہاتھ آبھی جائے تو بھنور کی گرہ کھلنے میں نہیں آتی۔ اقتصادیات ویسے بھی انتہائی مشکل موضوع ہے۔ بیوروکریسی کے فن کار، بھاری بھرکم بجٹ دستاویزات سے قطع نظر من پسند معنی و مفہوم کشید کرنے میں یکتا ہوتے ہیں۔ سو ہمیں آنے والے کچھ عرصے تک تیل دیکھنے اور تیل کی دھار دیکھنے کا انتظار کرنا ہوگا۔
عمر کا ایک بڑا حصہ سرکاری ملازمت میں گزارنے کے باعث میں جانتا ہوں کہ دیانت کی راہ پر چلنے اور لگی بندھی تنخواہ میں گزر اوقات کرنے والوں کی زندگی کتنی کٹھن ہوتی ہے۔ بہت سے محکمے اور شعبے ایسے ہیں جہاں رشوت کا چلن عام ہے گزشتہ پانچ سال کی آب و ہوا نے تو اس چلن کو معمولات حیات بنادیا ہے۔ سو رزق حلال کے آشوب سے بے نیاز لوگ تنخواہ یا اس میں کمی بیشی کے خرخشوں میں نہیں پڑتے۔ زوال کا یہ اندھا سفر برس ہا برس سے جاری تھا جو بالآخر، پیپلز پارٹی کے گزشتہ عہد ناہنجار میں درجہ کمال کو پہنچ گیا۔ احسان دانش نے کوئی نصف صدی پہلے کہا تھا 

ہے اجنبیت تو اجنبیت یہاں تو ہے دوستی میں رشوت
ذرا مرے سامنے تو آئے نہیں ہے جس زندگی میں رشوت
احاطہ خانقہ میں نذریں،احاطہ دفتری میں رشوت
غرض نہیں کوئی ایسا شعبہ جہاں نہیں نوکری میں رشوت
نہ جس پہ پگڑی کا شبہ گزرے یہاں کوئی ایسا گھر نہیں ہے
جو وقت نزدیک آرہاہے، کسی کو اس کی خبر نہیں ہے
جو فرض کو فرض جانتے ہیں، جو غور سے کام کررہے ہیں
بڑے تماشے کی بات یہ ہے وہ اس کا تاوان بھر رہے ہیں
مگر جو رشوت میں کھیلتے ہیں وہ بن رہے ہیں سنور رہے ہیں
تمام ابنائے وقت اپنی حدوں کو چھو کر گزر رہے ہیں
سمجھ لیا اس جہاں سے آگے کوئی جہان دگر نہیں ہے
جو وقت نزدیک آرہا ہے کسی کو اس کی خبر نہیں ہے
بلاشبہ گزر جانے والے پانچ سال احسان دانش کے تصور کی عملی تعبیر تھے۔ فرض کو فرض سمجھنے اور دیانت کی صراط مستقیم پر چلنے والے عتاب شاہی کا نشانہ بنتے اور تاوان بھرتے رہے۔ اربوں کی کرپشن کرنے والے، شہنشاہ کے دست شفقت تلے بنتے اور سنورتے چلے گئے۔ یہاں تک کہ بدعنوانی کی ساری حدیں پھلانگ گئے۔ پانچ برس کے دوران ایک کلچر پروان چڑھا۔ ایسا کلچر جس نے دیانت کو ندامت اور بدعنوانی کو نیک نامی بنادیا۔
بات ذرا دور نکل گئی۔ مقصود صرف یہ تھا کہ چوری چکاری اور بدعنوانی کی راہیں تراش لینے والوں کا مسئلہ نہیں، مسئلہ ان ملازمین کا ہے جنہیں بہرحال اپنی چادر میں رہنا ہے۔ کئی سالوں سے ایک روایت سی پڑ چکی ہے کہ بجٹ میں ان کی تنخواہیں کسی قدر بڑھ جاتی ہیں۔ چاہے یہ اضافہ بے قابو خارجی عوامل کی نذر ہوجائے لیکن وہ کچھ نہ کچھ آسودگی ضرور محسوس کرتے ہیں۔ اس میزانئے میں ان کی یہ امید پوری نہیں ہوسکی۔ اعداد و شمار کے جنگل سے انہیں کچھ غرض نہیں۔ ان کا تبصرہ یا تجزیہ صرف اس نکتے تک محدود ہے کہ ہماری تنخواہ وہی کی وہی رہی۔ اگر تنخواہوں کے تناسب سے، کم از کم ایک سے سولہ گریڈ تک کے ملازمین کو کچھ ریلیف مل جاتا تو اچھا ہوتا۔ بجٹ ابھی 148تجاویز147 کے مرحلے میں ہے۔ اسحاق ڈار صاحب کو باردگر سوچنا چاہئے کہ تباہ حال معیشت کے باوجود کہاں سے کوئی ایسی گنجائش نکل سکتی ہے کہ کم از کم نچلے درجے کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں کچھ اضافہ کیا جاسکے۔
سیاسی حکومت کے لئے نامقبول فیصلے بڑے مشکل ہوتے ہیں۔ ان کی نگاہیں عوام کی خوشنودی پہ لگی رہتی ہیں سو وہ قومی مفاد اور ناگزیر معاشی تقاضوں کو بھی نظرانداز کرتے ہوئے ایسے سطحی اور پرکشش فیصلے کرنے میں بڑی طاق ہوتی ہیں جن سے لوگ وقتی طور پر خوش ہوں۔ تنخواہوں میں اضافہ ایک آسان طریقہ ہے۔ اگرچہ یہ اضافہ عملاً کسی کام نہیں آتا لیکن اس سے گریز حکومتوں پر تنقید کا دروازہ کھول دیتا ہے۔ نواز شریف حکومت کو بھی سنگ باری کا نشانہ بننا پڑے گا تاہم تازہ بجٹ کی روح یہ محسوس ہوتی ہے کہ سستی جذباتیت اور کھوکھلی مقبولیت کے بجائے حقیقت پسندی کا راستہ اپنایا جائے۔ ملکی معیشت کا جہاز ڈوب رہا ہے تو اس کے عرشے پہ راگ رنگ کی محفلیں نہ سجائی جائیں۔ قوم کو پتہ ہونا چاہئے کہ ہمارے وسائل اور مسائل کا تناسب کیا ہے۔ عوام کے علم میں ہونا چاہئے کہ چودہ ہزار ارب روپے کے بارگراں تلے دبے ملک کو قرض کی قسطیں بھی ادا کرنی ہیں۔ انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ لوڈشیڈنگ کے عذاب سے نجات کے لئے اگر ساٹھ دنوں کے اندر اندر حکومت کو گردشی قرضوں کے لئے 500/ارب روپے ادا کرنے ہیں تو یہ کسی درخت پہ نہیں لگیں گے۔ انہیں خبر ہو کہ اگر بیمار قومی اداروں کی بحالی کی سعی کرنی ہے اور سالانہ پانچ سو ارب روپے خسارے کی بھٹی میں ڈالنے سے بچانے ہیں تو کوئی منصوبہ بندی کرنا ہوگی۔ اسحاق ڈار نے اچھا کیا کہ حقائق قوم کے سامنے رکھ دیئے اور بتادیا کہ اس طرح کے جلتے بلتے ریگستانوں سے لالہ و گل نہیں کھلا کرتے۔
ہچکیاں لیتی معیشت کے باوجود کچھ جرأت مندانہ اقدامات کی تحسین کی جانی چاہئے۔ کم آمدنی والے افراد کے لئے پانچ پانچ سو گھروں پر مشتمل ایک ہزار بستیوں کی تعمیر، نوجوانوں کے لئے آسان مارک اپ کے ساتھ قرضے، قرض حسنہ اسکیم کے لئے پانچ ارب روپے مختص کرنا، لیپ ٹاپ اسکیم، سولہ وفاقی وزارتوں کے سیکرٹ فنڈ کا خاتمہ، ایم اے پاس نوجوانوں کے لئے دس ہزارروپے ماہانہ کا وظیفہ، وزیراعظم ہاؤس اور سیکریٹریٹ فنڈ میں 45فیصد کی کمی، وزیراعظم کے صوابدیدی فنڈز کا خاتمہ، پرتعیش گاڑیوں پر ٹیکس کی چھوٹ کا خاتمہ، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کو نئے نام کے ساتھ جاری رکھنا، اس فنڈز کے لئے مختص رقم میں خاطر خواہ اضافہ، ماہانہ امداد ایک ہزار سے بڑھا کر 1200کرنا، کابینہ کے ارکان کا تعداد 28 تک محدود کرنا، 1200سی سی تک کی ہائبرڈ گاڑیوں پر ٹیکس اور ڈیوٹی کی چھوٹ اور متعدد دیگر اقدامات ایک سنجیدہ حکومت کی ٹھوس ترجیحات کا پتہ دیتے ہیں۔ کاشغر سے گوادر تک ایک بڑی شاہراہ اور ریلوے ٹریک کا منصوبہ ، پاکستان میں زبردست معاشی امکانات کا وسیلہ بن سکتا ہے۔ چینی وزیراعظم نے اپنے حالیہ دورے کے دوران میاں نواز شریف سے اس منصوبے پر تفصیلی گفتگو کی۔ اس وقت تک میاں صاحب نے وزارت عظمیٰ کا منصب نہیں سنبھالا تھا لیکن انہوں نے گرم جوشی کے ساتھ اس منصوبے کو خوش آمدید کہا۔ امید کی جارہی ہے کہ اس منصوبے پر ٹھوس پیشرفت کے لئے ایک ٹاسک فورس جلد روبہ عمل آجائے گی۔ یہ بہت بڑا منصوبہ ہے جس پر طویل عرصہ لگے گا لیکن دونوں ممالک کی حکومتیں پرعزم ہوں تو وقت کی طنابیں بھی کھینچی جاسکتی ہیں۔
بجٹ میں کئی کمزوریاں ہیں۔ اپوزیشن، میڈیا اور کاروباری حلقے ان کی نشاندہی بھی کررہے ہیں۔ امید ہے کہ حکومت بہتری کی کسی اچھی تجویز کو انا کا مسئلہ نہیں بنائے گی۔ یہ توقع بھی رکھی جانی چاہئے کہ اپوزیشن، روایتی پوائنٹ اسکورنگ کے کھیل سے ہٹ کر کامل سنجیدگی کے ساتھ ٹھوس اور قابل عمل تجاویز پیش کرے گی۔ ایک بات طے ہے کہ پاکستان کی معاشی صورتحال دگرگوں ہے۔ ایک بڑے ماہراقتصادیات کا یہ جملہ پوری داستان بیان کررہا ہے کہ 148اس وقت قومی معیشت آکسیجن ٹینٹ میں پڑی ہے147۔ اس معیشت کی مردہ رگوں میں زندگی کی حرارت پیداکرنے کے لئے کھوکھلے، سطحی اور مقبول اقدامات سے ہٹ کر تلخ فیصلے کرنے ہوں گے۔ دوا کے کڑوے گھونٹ سے ڈرنے والے مریض کم ہی شفا پاتے ہیں۔

No comments:

Post a Comment