Sunday, June 16, 2013

مہنگائی میں بہت اضافہ ہوگا، اراکین سینٹ کا حکومت سے جی ایس ٹی ٹیکس واپس لینے کا مطالبہ


اسلام آباد (خبر رساں ادارہ)اراکین سینٹ نے حکومت سے جی ایس ٹی ٹیکس میں ایک فیصد اضافے کو واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ رواں سال کے بجٹ میں عسکریت پسندی کو بالکل نظر انداز کر دیا گیا ہے جبکہ فاٹا کے عوام کے لئے کوئی رقم مختص نہیں کی گئی ۔سرکلر ڈیٹ کے503 ارب روپے کی ادائیگی خوش آئند ہے تاہم اس سے بجلی کا مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ جی ایس ٹی میں ایک فیصد اضافے سے مہنگائی میں پانچ سے چھ فیصد اضافہ ہوگا۔ چھوٹے صوبوں کے ساتھ نا انصافیاں ختم ہونی چاہیے، عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ بڑھایا گیا ہے۔اتوار کو سینٹ میں بحث میں حصہ لیتے ہوئے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ نئے قائد ایوان کو مبارکباد دیتا ہوں امید ہے کہ وہ اس ایوان کی اعلی روایات کو برقرار رکھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس بجٹ سے انہیں مایوسی ہوئی ہے۔وزیر خزانہ سے کچھ توقعات نہیں جو پوری نہیں ہوئی ہیں۔ وزیر 
خزانہ کا یہ کہنا درست نہیں کہ بجٹ بناتے وقت خزانہ خالی تھا ۔ہم سمجھتے ہیں کہ خزانے خالی بھی ہوتے ہیں کیونکہ اگر خزانے بھرے ہوئے ہوں تو کسی کو کوئی مسئلہ پیش نہیں آتا۔صاحب بصیرت قیادت خزانہ خالی ہونے کے باوجود ایسے اقدامات کرتی ہے جن سے خالی خزانے بھی بھر جاتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ سابق حکومت کے اقدامات سے زرمبادلہ کے ذخائر 7 ارب ڈالر سے بڑھ کر14 ارب ڈالر تک اور برآمدات 25 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں۔ ہماری حکومت نے خالی خزانے کے باوجود سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 125 فیصد کا اضافہ کیا ۔غریب خواتین کے لئے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام شروع کیا اوراس کے لئے70 ارب مختص ہے۔انہوں نے کہا کہ وزیر خزانہ کو اعلان کرنا چاہیے کہ انکم سپورٹ پروگرام سے بے نظیر بھٹو کا نام نہیں ہٹایا جائیگا۔ انہوں نے کہا کہ عسکریت پسندی نے خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کی معیشت کو تباہ کر کے دکھایا ہے ۔بجٹ میں عسکریت پسندی سے نمٹنے کے لئے کوئی اقدام نظر نہیں آئے ۔زیارت میں پاکستان کے ماضی اور بابائے قوم کی رہائش گاہ پر حملہ کیا گیا ہے ۔کوئٹہ میں طالبات کی بس کو نشانہ بنایا گیا ۔عسکریت پسندی کا مسئلہ حل کئے بغیر معاشی ترقی کا وعدہ مقصد حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ حکومت کو واضح اعلان کرنا چاہیے کہ عسکریت پسندوں کے خط جنگ جاری رہے گی ۔انہوں نے کہا کہ بلوچ قوم پرستوں پر مشتمل حکومت قائم کرنا خوش آئند ہے جب بھی بلوچستان میں اچھے اقدامات کئے جاتے ہیں ۔تخریب کاری کے واقعات پیش آنا شروع ہو جاتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ملک کو توانائی کے بحران کا سامنا کیا۔503 ارب روپے کا سرکلر ڈیٹ ادا کرنے سے بحران ختم ہو جائیگا ۔اس معاملے کی گہرائی میں جانے کی ضرورت ہے ۔بجلی کی پیداواری اور فراہمی کی قیمت میں اس وقت فرق سے تمام کا تمام سرکلر ڈیٹ ختم کر دیا جائے تو سات ،آٹھ ماہ بعد یہ دوبارہ بڑھ جائے گا۔ بجلی کی قیمت بڑھانا بھی اس مسئلے کا حل نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں دیکھنا چاہیے کہ عدالتی فعالیت کس حد تک معاشی ترقی پر اثر انداز ہوتی ہے۔ میثاق جمہوریت میں ہم نے آئینی عدالت کے قیام پر اتفاق کیا تھا۔اب اس معاملے پر پیش رفت نظر آنی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ صوابدیدی فنڈز اور خفیہ فنڈز کے خاتمے کا فیصلہ اچھا ہے ۔انسٹی ٹیوٹ آف ریجنل سٹڈیز کو وزارت اطلاعات کے خفیہ فنڈز سے رقم ملتی تھی ۔اب یہ بندی ہو جائے گی ۔یہ ادارہ مختلف ملکی امور پر اپنی رپورٹس مرتب کرنے سے فنڈز کے بندش سے یہ سلسلہ رک جائیگا۔ حکومت کو اس معاملے پر نظر ثانی کرنی چاہیے ۔سینیٹر ہدایت اللہ نے کہا کہ فاٹا میں دہشت گردی سے ہزاروں افراد بے گھر ہو چکے ہیں ۔ہم حالت جنگ میں ہیں ہماری معاشی حالت بہت خراب ہے ہمیں ٹیکس سے جو استثنیٰ دیا گیا تھا وہ بھی واپس لے لیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت نے پورے ملک میں صنعتی زون بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔فاٹا کا سا میں کوئی ذکر نہیں ہے جب لوگوں کو روز گار نہیں ملے گا تو وہ بندوق اٹھانے پر محفوظ ہو جائیگا۔انہوں نے کہا کہ میرے علاقے میں105 سکول دہشت گردی میں تباہ کئے ہیں ،سکولوں کی تعمیر کے لئے7 سے8 ارب روپے خصوصی طورپ ر دیئے جائیں ۔بحث میں حصہ لیتے ہوئے سعید الحسن مندوخیل نے کہا ہے کہ یہ بجٹ ہمیں بیورو کریسی کا بجٹ نظر آتا ہے ۔ غریب آدمی کے لئے اس بجٹ میں کچھ نہیں ہے ۔جی ایس ٹی میں ایک فیصد اضافے کے اثرات 5 سے6 فیصد پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ گردشی قرضے کا قرضہ ضروری ہے یہ یقینی طور پر اس حکومت کا عوام کے لئے ایک تحفہ ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ ٹیکس کا دائرہ بڑھانے کی بھی ضرورت ہے۔ملک میں امن امن وامان کی صورت حال درست نہیں۔ایف بی آر کو بینک اکاؤنٹس تک رسائی دینا درست اقدام نہیں۔ انہوں نے کہا کہ فاٹا کے عوام کو ریلیف دینے کی بجائے انہیں ٹیکس کا استثنی ختم کر دیا گیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ نجی شعبے میں سرمایہ کاری بڑھانے کی فوری ضرورت ہے ۔ترقیاتی بجٹ کے لئے خطیر رقم مختص کرنا خوش آئند اقدام ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ جی ایس ٹی کی شرح میں ایک فیصد اضافے کو عوامی مفاد میں واپس لیاجانا چاہیے ۔ مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر رفیق رجوانہ نے کہا کہ ہم نے عوام سے جو وعدہ کئے ہیں پورے کریں گے ۔ موجودہ حالات میں حکومت نے انتہائی متوازن بجٹ پیش کیا ہے ۔اس پر وزیر خزانہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔انہوں نے کہا کہ محدود وسائل میں پیش کئے جانے والے بجٹ پر اعتراضات نہیں کئے جانے چاہیے ۔ہماری نیت صاف ہے ۔بجٹ میں ٹریننگ پروگرام،آشیانہ ہاؤسنگ سکیم اور قرض حسنہ کی سکیمیں رکھی گئی ہیں۔ فاٹا سے سینیٹر عباس آفریدی نے کہا کہ توقع کی جارہی تھی کہ نئی حکومت کا بجٹ عوام کی ترجمانی کریگا۔ زیارت اور کوئٹہ کے واقعات انتہائی افسوسناک ہیں۔چھوٹے صوبوں کے ساتھ ماضی میں نا انصافیاں ہوتی رہیں ہیں اب اس روایت کو ختم کرنا ہوگا ۔وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس سلسلے میں پیش رفت کرے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے نظام کو تبدیل کرنا ہے لیکن اس کے لئے قربانی دینی ہوگی ۔ہمیں صوبوں اور لسانیت کی بات نہیں کرنی چاہیے،پاکستان کی سیاست کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ فاٹا بھی پاکستان کا حصہ ہے لیکن انہیں ہمیشہ نظر انداز کیا گیا ۔بجٹ میں بھی فاٹا کا کہیں ذکر نظر نہیں آتا۔اتحادی امدادی فنڈز کا بہت ذکر ہوتا ہے ۔اس کی رقم پر بھی فاٹا کے عوام کا حق ہے۔ انہوں نے کہا کہ عسکریت پسندی کو اگر روکا نہ گیا تو اس کا دائرہ پنجاب ،سندھ اور دوسرے علاقوں تک پھیل جائیگا۔ انہوں نے کہا کہ سینٹ میں چاروں صوبوں کی نمائندگی ہے لیکن ایوان بالا ہونے کے باوجود اس کے اختیارات حاصل نہیں ہمیں بجٹ میں فاٹا کے نقل مکانی کرنے والے افراد کی واپسی کے لئے کوئی رقم نہیں رکھی گئی ۔حکومت کو پاکستان کے لئے فیصلے کرنے چاہیے ،کسی مخصوص علاقے یا صوبے کے لئے نہیں ۔اردو کو سرکاری زبان کے طور پر رائج کرناچاہیے۔انہوں نے کہا کہ ٹیکس کا دائرہ کار بڑھانے کی ضرورت ہے،موجودہ ٹیکس دھندگان پر اضافی بوجھ ڈالنے سے گریز کیا جائے ۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ فاٹا یونیورسٹی کے قیام کے لئے فنڈز مختص کئے جائیں اور فاٹا میں تعمیر نو کے مواقع زونز کے قیام کے لئے موثر اقدامات کئے جائیں ۔پیپلز پارٹی کے سینیٹر سعید غنی نے کہا کہ بجٹ تقدیر میں وزیر خزانہ نے کسانوں کا کوئی ذکر نہیں کیا ۔حالانکہ کسانوں کی وجہ سے ہماری برآمدات 50 کروڑ ڈالر بڑھ گئی ہے۔ سمندر پار پاکستانیوں کے لئے بھی اس بجٹ میں کوئی چیز نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ نہ ہونا بھی حیران کن ہے تاہم بعد میں کیا جانے والا دس فیصد اضافہ بھی ناکافی ہے۔ یہ اضافہ کم از کم25 فیصد ہونا چاہیے ۔ انہوں نے کہا کہ سٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال کے آخر تک 7 سے ساڑھے سات فیصد مالیاتی خسارہ ہو جائیگا جبکہ وزیر خزانہ نے کہا کہ 8 سے ساڑھے 8 فیصد خسارہ رہے گا۔ خسارے میں1.3 فیصد اضافہ موجود ہ حکومت کررہی ہے ۔انہوں نے کہا کہ پرانی غلطیوں کے پیچھے چھپ کر آئینی خلاف ورزی نہیں کی جانی چاہیے ۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے دور میں آر جی ایس ٹی کی مخالفت کرنے والوں نے جی ایس ٹی کی شرح میں ایک فیصد اضافہ کر دیا ہے۔ یہ دوغلی پالیسی کیوں چلائی جارہی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر ایم حمزہ نے کہا کہ بجٹ میں انتہائی اچھی تجاویز پیش کی گئی ہیں لیکن زرعی انکم ٹیکس کی طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی ۔سرکاری اداروں میں اتنے زیادہ لوگوں کو بھرتی کیا گیا ہے کہ وہ ان کا بوجھ بھی برداشت نہیں کر سکتے۔انہوں نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ نجکاری کا عمل آگے بڑھائیں اور خسارے میں کام آنے والے اداروں کی کارکردگی بہتر بنائے ۔خسارے کے شکار اداروں کی نجکاری کے بغیر قومی پیداوار میں اضافہ اور بے روز گاری کا خاتمہ نہیں کیا جا سکتا۔انہوں نے کہا کہ سابق حکومت503 ارب روپے کا گردشی قرضہ ادا نہیں کر سکی۔ پی پی کو لوگوں نے اس لئے ووٹ نہیں دیئے کہ وہ بھی شدید کمی سے دو چار ہیں اب موجودہ حکومت کی طرف سے گردشی قرضے کا خاتمہ خوش آئند ہے ۔انہوں نے کہا کہ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے کو ملتان سے اغواء کیا جاتا ہے اور قبائلی علاقوں میں پہنچا دیا جاتا ہے تو اس سے ملک میں کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔

No comments:

Post a Comment