Monday, June 17, 2013

بلوچستان حملوں پر حکام کے بیانات میں تضاد ہے،ڈی آئی جی کی زیرقیادت مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنا دی ہے، چوہدری نثار


اسلام آباد (خبر رساں ادارہ )وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کی رہائش گاہ پر حملے اور بولان میڈیکل کالج اور کمپلیکس پر دہشت گردی کے حملے کی تحقیقات کے لئے ڈی آئی جی کی زیر قیادت مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے دی ہے جس کی رپورٹ جلد ایوان میں پیش کر دی جائے گی ۔زیارت اور بولان میڈیکل کالج دونوں دہشت گردی کے حملوں کے حوالے سے بہت سے شکوک وشبہات پیدا ہوئے ہیں جن کو دور کرنا ضروری ہے،اس حوالے سے ڈی سی او اور ڈی پی او کے بیانات بھی مختلف ہیں۔ پیر کے روز قومی اسمبلی میں بلوچستان کی صورتحال پر پالیسی بیان دیتے ہوئے وزیر داخلہ بتایا کہ بلوچستان میں زیارت اور بولان میڈیکل کالج پر حملے قابل مذمت ہیں۔زیارت کا علاقہ بہت پرامن ہے اور وہاں 
جرائم کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے ۔2008 ء سے پہلے بابائے قوم قائد اعظم کی رہائش گاہ کی نگرانی گورنر بلوچستان کرتے تھے لیکن اس کے بعد یہ بلوچستان کے محکمہ آثار قدیمہ کے حوالے کر دی گئی وہاں صرف 2 چوکیدار اور 4 پولیس اہلکار حفاظت کے لئے تعینات تھے۔ وقوعہ کی شب دونوں چوکیدار اپنی رہائش گاہ پر مقیم تھے ۔چوکیداروں کا کہنا تھا کہ وہ ہر گھنٹے کے بعد علاقے کا ایک چکر لگاتے تھے لیکن ان کے بیانات غلط معلوم ہوتے ہیں کیونکہ دہشت گرد گھنٹہ ڈیڑھ سے زیادہ بابائے قوم کی رہائش گاہ کے اندر رہے اور انہوں نے بارودی سرنگیں بچھائیں اور دھماکے کئے لیکن چوکیدار ان کا پتہ نہیں لگا سکے۔پہلا دھماکہ تو پاس ہی پولیس اہلکاروں میں سے ایک سامنے آیا اور وہ شہید ہوگیالیکن سوال یہ ہے کہ مذکورہ پولیس اہلکاروں اور چوکیداروں نے پاس موجود پولیس چوکی کو اس بارے میں آگاہ کیوں نہیں کیا؟ اور مزید برآں بروقت اطلاع ہو جاتی تو زیارت کے خارجی اور داخلی راستے بند کر کے ملزمان کو پکڑا جاسکتا تھا۔ اس سلسلے میں متعلقہ حکام کے بیانات ایک دوسرے کی نفی ہیں کیونکہ کچھ کا کہنا ہے کہ دہشت گرد موٹر سائیکلوں پر آئے لیکن شواہد بتاتے ہیں وہ گاڑیوں پر آئے تھے،بروقت اطلاع پر راستے بند کر دیئے جاتے تو یقیناً موٹر سائیکل اور گاڑیوں پر سوار دہشت گردوں کو آسانی سے پکڑا جا سکتا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس واقعہ کی تحقیقات کے لئے ڈی آئی جی کی زیر قیادت مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے دی گئی ہے جو حالات و واقعات کا جائزہ لیکر اپنی رپورٹ پیش کرے گی اور اس رپورٹ کو جلد ایوان کے سامنے پیش کر دیا جائیگا۔ ان کا کہنا تھا کہ دونوں چوکیدار تحقیقات کے لئے زیر حراست ہیں ۔بولان میڈیکل کالج پر حملے کے بارے میں چوہدری نثار علی خان کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر حکام کے بیانات مناسب نہیں ہے کیونکہ کچھ افسران کا کہنا ہے کہ صرف دو دہشت گردوں نے کارروائی کی لیکن شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ دہشت گرد چار تھے۔ اس کے علاوہ انہوں نے کارروائی سے قبل بولان میڈیکل کالج کی بس پر خود کش حملہ کیا اور غالب امکان ہے کہ خود کش حملہ آور خاتون تھی جس کے بعد دہشت گردوں کو پتہ تھا کہ اعلی حکام بولان میڈیکل کمپلیکس میں اکٹھے ہوگئے اس لئے وہ عام لوگوں کی طرح چھپ کر بیٹھ گئے اعلی حکام کے آنے پر اندھا دھند فائرنگ کر دی ۔ڈپٹی کمشنر بہت ایماندار تھے۔انہوں نے مزید کہا کہ کوئٹہ انتہائی سکیورٹی کے حصار میں ہے ۔جا بجا ایف سی پولیس کی چوکیاں ہیں لیکن اس کے باوجود سمجھ نہیں آتی کہ دہشت گرد کیسے کارروائی کر جاتے ہیں۔وفاقی حکومت صوبوں کو حساس معلومات اور دیگر سہولیات فراہم کر سکتی ہے۔صوبوں سے مشاورت کی جائے گی کہ انہیں مزید کیاچاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے امن وامان کے مسئلے سے نمٹنے کے لئے 20 جون کو تمام سول آرمڈ فورسز کے سربراہان کا اجلاس بلایا ہے اور ان کی مشاورت سے 21 جون کو قومی سلامتی پالیسی تشکیل دی جائے گی ۔وفاقی حکومت قومی یادگاروں کی دیکھ بھال کی ذمہ داری صوبوں کو حوالے کر دے گی اور قائد اعظم محمد علی جناح کی رہائش کی آئندہ چارماہ میں تزئین و آرائش کر دی جائے گی ۔انہوں نے مزید کہا کہ وفاقی حکومت صوبوں کی درخواست پر ایف سی کو صوبوں کے حوالے کرے گی لیکن اس وقت ایف سی بالکل صوبوں کے تحت ہوگی اور صوبائی حکومت کی ہدایت پر عملدرآمد کی پابند ہوگی ۔وزیر داخلہ کے بیان کا خیرمقدم کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر شاہ محمود قریشی نے کہا کہ بلوچستان کے حالات بہت پیچیدہ ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں حکومت کو تعاون فراہم کریں تا کہ حکومت دہشت گردی کے واقعات میں ملوث تمام افرادکو کیفر کردار تک پہنچا سکے۔قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے کہا کہ امن وامان کا معاملہ ماضی کا تسلسل ہے اور اس مسئلے پر ان کی جماعت نہ تو سیاست کرے گی اور نہ ہی اسے سیاسی رنگ دے گی ۔یہ معاملہ حکومت کی ناکامی نہیں ہے ۔ ان کا کہناتھا کہ دہشت گردی کے واقعات سکیورٹی ایجنسی کی ناکامی ہیں وہ ان واقعات کا قبل از وقت کیوں روک نہیں پاتیں۔اسی معاملے پر محمود خان اچکزئی کا کہنا تھا کہ موجودہ اسمبلی اس وقت معرض وجود میں آئی جب تمام ملک دہشت گردی کی آگ جل رہا ہے ۔ہم قوم کی حیثیت سے عالمی سطح پر شک کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔سیاسی لیڈر شپ کی قیادت کو بیٹھنا چاہیے اور امریکہ کے ساتھ بات کرنی چاہیے،امریکہ کو طالبان سے مذاکرات میں شامل کیا جائے ۔اگر ہم ایسا نہیں کر سکتے تو ہمارا ایوان میں بیٹھنے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر صاحبزادہ طارق اللہ نے کہا کہ ملک دہشت گردی کی گرفت میں ہے ،حکومت کو چاہیے کہ اس مسئلے پر آل پارٹیز کانفرنس بلائے ۔اسی معاملے پر شیخ رشید نے کہا کہ وفاقی وزیر داخلہ کا بیان خوش آئند ہے لیکن حالات بہت گھمبیر ہیں ۔حکومت کو چاہیے کہ تمام دہشت گرد تنظیموں سے بات چیت کرے تا کہ صورت حال پر قابو پایا جا سکے کیونکہ دس روز میں اسلام آباد سے 12 افراد اور راولپنڈی سے2 افراد کو دہشت گردوں نے اغواء برائے تاوان وصول کرنے کی نیت سے اغواء کیا ہے اور لوگ ڈر کے مارے پولیس کو بھی اطلاع نہیں دیتے۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ چھ مہینے انتہائی اہم ہیں اس معاملے پر پالیسی تشکیل دی جائے کیونکہ آئندہ چھ ماہ میں امریکی افواج نے افغانستان سے رخصت ہونا ہے۔اکرم خان درانی کا کہنا تھا کہ گزشتہ دور میں بہت سی آل پارٹیز کانفرنسز ہوئیں جن میں واضح تجاویز دی گئی تھیں کہ دہشت گردوں کے ساتھ بات چیت کی جائے گی اور اسی وجہ سے کچھ عرصے تک دہشت گردوں نے اپنی کارروائیاں روک رکھیں لیکن جب کسی نے ان سے بات نہ کی تو انہوں نے دوبارہ دہشت گردی شروع کر دی ہم نے فیصلہ کرنا ہے کہ دہشت گردوں کے ساتھ بات چیت کے ساتھ معاملات حل کرنے ہیں یا طاقت کا استعمال کرنا ہے۔ اراکین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ نے یقین دہانی کرائی کہ بلوچستان میں حالیہ دہشت گردی کے واقعہ کی تحقیقاتی رپورٹ ایوان کے سامنے ضرور پیش کی جائے گی اور واقعہ میں ملوث تمام افراد کے خلاف بلاتفریق کارروائی ہو گی ۔ان کا کہنا تھا کہ وفاق امن وامان کو یقینی بنانے کے لئے صوبوں کو ہر ممکن تعاون فراہم کریگا۔

No comments:

Post a Comment